حضرت ابراہیم علیہ السلام تقریباً پانچ ہزار سال قبل ظالم بادشاہ نمرود کے دَور میں پیدا ہوئے اور ناز و نعم میں پلے بڑھے، مگر جب آپ نے آثار کائنات پر غور و تدبر کے بعد اللہ کے عرفان اور حقیقت کو پالیا تو خاندانی رسوم و رواج اور بت پرستی کا انکار کردیا اور ایک لمبے عرصہ تک قوم کے لوگوں کو سمجھانے اور قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ آخر کار آپ نے بادشاہ وقت سے مباحثہ کیا اور اس کی خدائی کا انکار کیا، جس کی پاداش میں آپ کو اپنے وطن سے محروم ہونا پڑا۔ مگر جس عرفان کو آپ نے پالیا تھا، اس سے دست بردار ہوکر دنیوی آرام و آسائش اور دولت و منصب کو حاصل کرنا آپ کو منظور نہ تھا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک دن بت خانہ میں گھس کر بتوں پر ضربیں لگائیں۔ قوم کے لوگوں نے (میلے سے واپسی کے بعد) آپ سے سوال کیا تو آپ نے سمجھایا کہ تم اپنے ہی بنائے ہوئے بتوں کو پوجتے ہو، حالانکہ اللہ ہی نے تم کو پیدا کیا اور ان چیزوں کو بھی، جنھیں تم بناتے ہو۔ مگر قوم کے لوگوں نے ماننے سے انکار کردیا اور آپ کو آگ میں جلاکر مارنا طے کرکے اَلاؤ میں جھونک دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آگ میں جل جانا منظور کرلیا، مگر اپنے دین سے پھرنا منظور نہ تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ ’’ابراہیم کے لئے سلامتی کے ساتھ ٹھنڈی ہو جا‘‘۔ آپ زندہ بچ گئے اور شعلوں کے درمیان سے صحیح و سلامت باہر نکل آئے۔
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل تھی محو تماشائے لبِ بام ابھی
جب اسلام پر عمل اور تبلیغ کے لئے وطن کی سرزمین تنگ ہو گئی تو آپ نے وطن کو چھوڑنا منظور کرلیا، مگر باطل کے علمبردار نمرود سے مفاہمت منظور نہ کی۔ سوائے آپ کی زوجہ محترمہ حضرت سارہ کے نمرود کے خوف سے کوئی آپ کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہ تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام کو ساتھ لے کر اپنا وطن چھوڑ دیا اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لئے نکل پڑے۔ آپ نے عراق، مصر، شام، فلسطین اور ریگستان عرب کے مختلف علاقوں میں اسلام کی دعوت دی اور پھر اپنے مشن کی اشاعت کے لئے مختلف علاقوں میں خلفاء مقرر کئے۔ شرق اردن میں اپنے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام کو، شام و فلسطین میں اپنے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کو اور اندرون عرب اپنے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مامور کیا۔ اس طرح اللہ کے حکم پر اللہ کے دین کی تبلیغ کے لئے آپ نے اپنی زندگی اور ساری نسل کو استعمال کیا۔
ڈاکٹر محمد سمیع الزماں
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بڑھاپے کی عمر میں جو بیٹا نصیب فرمایا تھا، اس کی قربانی کا حکم دے کر آپ کو آزمایا گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک دن (بعض روایات کے مطابق مسلسل تین دن) خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹے کو قربان کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ پیغمبروں کا خواب بھی وحی کی ایک شکل ہے۔ آپ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی رضامندی سے ان کو پیشانی کے بل لٹا دیا (تاکہ بیٹے کا چہرہ دیکھ کر آپ کے قدم نہ ڈگمگائیں) اور چھری بیٹے کے حلق پر پھیردی۔ دنیا نہیں کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا تھا کہ ایک ضعیف باپ اپنے بیٹے کو بغیر کسی دُنیوی غرض کے محض اللہ تعالیٰ کے حکم پر قربان کرنے تیار ہو گیا ہو۔ اس طرح آپ نے اپنے خواب کو سچ کردکھایا، یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک جنتی دنبہ کو آپ کی چھری کے نیچے بھیج کر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بچا لیا۔ قرآن مجید نے اس واقعہ کا ذکر اس طرح کیا ہے: ’’جب وہ لڑکا اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو (ایک روز) ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے کہا: بیٹا! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تمھیں ذبح کر رہا ہوں، اب تم بتاؤ تمہارا کیا خیال ہے۔ بیٹے نے کہا: ابا جان! جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے، اسے کرڈالئے، انشاء اللہ آپ مجھے صابروں میں پائیں گے۔ آخر کو ان دونوں نے سر تسلیم خم کردیا اور ابراہیم (علیہ السلام) نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرادیا۔ اور ہم نے ندا دی اے ابراہیم! تو نے خواب سچ کردکھایا، ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیہ میں دے کر اس بچے کو بچالیا اور اس کی تعریف و توصیف ہمیشہ کے لئے بعد کی نسلوں میں چھوڑدی۔ سلام ہے ابراہیم پر، ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں، یقیناً وہ ہمارے مؤمن بندوں میں سے تھے‘‘۔
(سورۃ الصفّٰت۔ ۲۰۱تا۱۱۱)
حضرت ابراہیم علیہ السلام ہر طرح کی آزمائش میں پورے اُترے اور آپ نے رہتی دنیا تک کے لئے یہ پیغام چھوڑا کہ یہ زندگی فانی ہے اور اس میں اپنے مالک کی مرضی پر چلنا ہی ایک بندۂ مؤمن کی پہچان ہے، جس کا اجر اللہ تعالیٰ بندے کو دنیا و آخرت میں عطا فرمائے گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی کو اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر واجب کرکے قیامت تک کے لئے اسے یادگار بنادیا، تاکہ لوگ آپ کی اس قربانی کو یاد رکھیں اور اللہ کی راہ میں ثابت قدم رہنے کا درس حاصل کریں۔