بی یو ایم ایس نشستوں کی تعداد گھٹانے کی گھناونی سازش

ہر سال کی طرح 75 کی بجائے 60 نشستیں کیوں ؟ نظامیہ یونانی شفاخانہ سے ایوروید ہاسپٹل کی منتقلی ضروری
حیدرآباد ۔ 9 ۔ ستمبر : ہندوستان میں دیسی طب کے فروغ کی خاطر حکومت ایوروید ، ہومیو پتھی ، سدھا اور یوگا کو بڑے پیمانے پر ترقی دے رہی ہے لیکن جس طرح فرقہ پرست اردو زبان کو مسلمانوں سے جوڑ کر اسے روزگار کی زبان بننے سے محروم رکھے ہوئے ہیں اس انداز میں ایسا لگتا ہے کہ طب یونانی کے ساتھ بھی تعصب کا مظاہرہ کیا جارہا ہے ۔ حالانکہ طب یونانی میں بعض ایسے امراض کا علاج موجود ہے جو ایلوپتھی ، ایوروید اور دیگر دیسی طریقہ طب میں نہیں ہے یونانی ادویات کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ دوسری ادویات کی بہ نسبت اس میں ذیلی اثرات کا امکان بہت کم پایا جاتا ہے ۔ طب یونانی کی ان اچھائیوں کے باوجود صرف اور صرف اسے فروغ دینے سے اس لیے گریز کیا جارہا ہے کیوں کہ یہ نظام طب بھی مسلمانوں اور اردو سے جڑا ہوا ہے ۔ مرکزی حکومت کے تحت کام کرنے والے محکمہ آیوش ، سنٹرل کونسل آف انڈیا میڈیسن اور آندھرا و تلنگانہ میں طبی کورس میں داخلوں کی ذمہ دار ڈاکٹر این ٹی آر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس کے متعصبانہ سلوک کے نتیجہ میں جہاں یونانی ہاسپٹلوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے وہیں بی یو ایم ایس میں داخلہ کے خواہاں امیدواروں کو عجیب و غریب طریقوں سے مایوس کیا جارہا ہے ۔ متحدہ آندھرا پردیش میں یونانی کے دو میڈیکل کالجس تھے گورنمنٹ نظامیہ طبی کالج حیدرآباد اور ڈاکٹر عبدالحق یونانی میڈیکل کالج کرنول ان دونوں کالجوں میں بالترتیب 75 اور 50 نشستیں پر کی جاتی رہی ہیں لیکن تعلیمی سال 2014-15 کے لیے ڈاکٹر این ٹی آر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس آندھرا پردیش وجئے واڑہ کی جانب سے جو اعلامیہ جاری کیا گیا ہے اس میں گورنمنٹ نظامیہ طبی کالج حیدرآباد کے لیے 60 اور ڈاکٹر عبدالحق یونانی میڈیکل کالج کرنول کے لیے 50 نشستوں کا حوالہ دیا گیا ہے ۔ جب کہ گورنمنٹ نظامیہ طبی کالج حیدرآباد میں ہر سال 75 طلباء وطالبات بی یو ایم ایس میں داخلہ لیتے ہیں صرف سال 2011 اور 2012 میں 60 نشستیں ہی پر کی گئیں لیکن گذشتہ سال یعنی 2013 میں سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے 75 نشستیں پر کی گئیں جس سے طلبہ بالخصوص اردو میڈیم یا اردو سے واقف طلبہ وطالبات کو فائدہ ہوا۔ واضح رہے کہ 1972 سے بی یو ایم ایس کورس کی مانگ میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ۔ کسی وقت گورنمنٹ نظامیہ طبی کالج اور ڈاکٹر عبدالحق یونانی کالج کرنول میں 50 ، 50 نشستیں ہوا کرتی تھیں ۔ 2007 سے مسلسل 75 نشستیں پر کی جارہی ہیں ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس بارے میں گورنمنٹ نظامیہ طبی کالج کے پرنسپل یا کوئی اور ذمہ دار عہدہ دار میڈیا سے بات کرنے سے گریز کررہے ہیں ۔ راقم الحروف نے اس سلسلہ میں انجمن طلبائے قدیم گورنمنٹ نظامیہ طبی کالج ڈاکٹر سید زین العابدین خاں سے بات کی ۔ انہوں نے بتایا کہ سنٹرل کونسل آف انڈیا میڈیسن میں یونانی اطباء یا یونانی طبی اداروں کی موثر نمائندگی ہونے کے باعث انفراسٹرکچر کی کمی یا فقدان ان کا بہانہ بناکر بی یو ایم ایس کی سیٹس کم کی جارہی ہیں اگر 75 کی بجائے 60 طلبہ کو ہی داخلہ دیا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہمارے 15 طلبہ بی یو ایم ایس میں داخلے سے محروم رہیں گے ۔ انفراسٹرکچر کے سوال پر انہوں نے بتایا کہ اس تاریخی شفاخانہ کے ایک حصہ میں ایورویدک ہاسپٹل قائم کردیا گیا ایسے میں ایک طرح سے اس یونانی دواخانہ کی شناخت ختم کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں ۔ اگر ایورویدک ہاسپٹل وہاں سے کسی اور جگہ منتقل ہوجائے تو اس حصہ میں یونانی شفاخانہ کے کئی بلاکس قائم کئے جاسکتے ہیں ۔ انفراسٹرکچر میں بہتری لائی جاسکتی ہے اور 180 بستروں کے اس تاریخی ہاسپٹل میں کم از کم 50 نئے بیڈس کا اضافہ کیا جاسکتا ہے ۔ دوسری جانب ہم نے بی یو ایم ایس انٹرنس ٹسٹ میں کامیابی حاصل کرنے والے طلباء وطالبات سے بات کی ۔ ان لوگوں نے بتایا کہ ڈپٹی چیف منسٹر جناب محمود علی ، کے سی آر کابینہ کا مسلم چہرہ ہیں وہ اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے 15 مسلم طلبہ کا بی یو ایم ایس میں داخلہ یقینی بنا سکتے ہیں ۔ ویسے بھی آصف سابع حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں بہادر کے قائم کردہ اس تاریخی دواخانہ کی حالت بہت شکستہ ہوگئی ہے ۔ اگرچہ تزئین نو کا کام جاری ہے ۔ اس کے باوجود اندرونی وارڈس کو دیکھ کر وہ کسی بھی طرح ہاسپٹل نظر نہیں آتا ۔ اس کے لیے بھی جہاں حکومت اور سرکاری ادارے ذمہ دار ہیں وہیں طب یونانی سے وابستہ ماہرین بھی ذمہ دار ہیں کیوں کہ وہ ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کی بجائے مجرمانہ خاموشی اختیار کرتے ہوئے اپنی علمی ذمہ داری سے پہلوتہی کی ہے ۔ مثال کے طور پر سنٹرل کونسل آف انڈین میڈیسن نے مالی سال 2013-14 کے لیے ایوروید کے لیے 17.21 کروڑ روپئے ، ہومیو پیتھی کے لیے 15.82 کروڑ روپئے اور یونانی میڈیسن کے لیے 8.27 کروڑ روپئے مختص کئے ہیں لیکن اس نا انصافی کے خلاف کسی ہمدرد ملت کو آواز اٹھانے کی زحمت نہیں ہوئی ۔ جہاں تک اس کالج میں تدریسی عملہ کا سوال ہے ۔ پروفیسرس ، اسسٹنٹ پروفیسرس ، لکچررس ، ریڈرس اور دیگر پر مشتمل 55 ارکان کا عملہ کام کرتا ہے ۔ ان حالات میں انفراسٹرکچر کا بہانہ بناکر نشستوں کی تعداد میں کمی کرنا ناقابل فہم اقدام ہے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ روزنامہ سیاست طب یونانی کو فروغ دینے کی خاطر بی یو ایم ایس میں داخلہ کے لیے طلبہ کو تیار کرارہا ہے اور ان کے لیے ادارہ کی جانب سے خصوصی کوچنگ کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ اس مرتبہ سرفہرست طلباء میں سیاست سے کوچنگ حاصل کرنے والوں کی کثیر تعداد شامل ہے ۔ بہر حال ضرورت اس بات کی ہے کہ سی سی آئی ایم اور دیگر اداروں کو بی یو ایم ایس نشستوں میں کمی سے روکا جائے ۔۔ mriyaz2002@yahoo.com