بی ٹوکری کی دعوت

جنگل میں ہر طرف خوشی کا سماں تھا ۔ آج ’’ بی ٹوکری ‘‘ کی دعوت تھی ۔ کدو میاں اپنے بچوں سے مخاطب تھے ۔ بیٹا! جلدی کرو یہ شرٹ پہنو ! کہاں بھاگے جارہے ہو ! دیر ہو رہی ہے ، ہمیں بی ٹوکری کے ہاں جانا ہے ۔ مسز بھنڈی اپنے ہاتھوں میں موبائیل اور پرس لے کر مٹک مٹک کر چل رہی تھی ۔ انکل کریلا اپنے بچوں کو ڈانٹ رہے تھے ۔ لگتا ہے آج تم ہمیں دیر کراؤ گے ؟ توری آنٹی لپ اسٹک لگارہی تھیں ۔ اتنے میں ماسی مولی آئی اور کہنے لگی ۔ اری توری جلدی کرو ، دیر ہو رہی ہے ۔ توری نے ایڑی والا شوز پہنا اور دونوں ’’ بی ٹوکری ‘‘ کے ہاں چل دیں ۔ گاجر بیگم لال لال ہوکر بستر میں پڑی تھی۔ اتنے میں ’’ بیگن خالو ‘‘ آئے اور بولے ’’ گاجر تمہیں بی ٹوکری کے ہاں نہیں جانا ۔ گاجر بیگم بولی میاں جی میں کل جاؤں گی ۔ آج میں بیمار ہوں ۔ اتنے میں بی ٹوکری کے گھر سے آئی ہوئی گاڑی نے ہارن دیا ۔ بیگن خالو سب سے پہلے اس میں سوار ہوئے اسی طرح سب گاڑی میں سوار ہوئے ، اب گاڑی ’’ پیپ پیپ ‘‘ کرتی ہوئی بی ٹوکری ، کے گھر کے راستے پر رواں دواں تھی ۔ کچھ دیر بعد گاڑی بی ٹوکری کے گیٹ پر کھڑی تھی ۔ سب سے پہلے ’’ مسز بھنڈی ‘‘ اپنی ساڑھی کا پلو ‘‘ ٹھیک کرتے ہوئے نیچے آئی ۔ اسی طرح ایک ایک کرکے سب نیچے اتر گئے ۔ بی ٹوکری ان کے استقبال کیلئے گیٹ میں کھڑی تھی ۔ ’’ بی ٹوکری ‘‘ نے سب پر پھول پھینکے ! سب بی ٹوکری سے گلے ملے ، بی ٹوکری انہیں اپنے ڈرائنگ روم میں لے گئی ۔  اسی طرح سب کھانے کی ٹیبل کے ارد گرد رکھی کرسیوں پر بیٹھ گئے ۔ ’’ بی ٹوکری ‘‘ کھانے کی ٹرالی میں طرح طرح کے کھانے لے آئی اور ٹیبل پر رکھ دئے اور سب کو کھانا پلیٹوں میں ڈال کر پیش کیا ! سب بی ٹوکری ‘‘ کے پکوان سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ اتنے میں سورج کی چمکتی ہوئی کرنیں کھڑکی سے جھانکتی ہوئی بی ٹوکری کے منہ پر پڑیں ۔ بی ٹوکری بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی اور بھاگتے ہوئے ڈرائنگ روم میں گئی ۔ کیا دیکھتی ہے کہ ٹیبل خالی کی خالی پڑی ہے ۔ ’’ بی ٹوکری ‘‘ نے اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’ ہائے اللہ یہ تو خواب تھا ۔ اتنا خوشی کا سماں خواب میں تبدیل ہو گیا۔ ہائے یہ کیا ہوگیا ۔ کاش ، یہ حقیقت ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا ‘‘۔ افسوس ، بی ٹوکری ‘‘۔