بی سی کمیشن کی تشکیل کو ہائیکورٹ میں چیلنج

ریٹائرڈ جج کے تقرر کی روایت سے انحراف ، حکومت کو نوٹس جاری

حیدرآباد۔ 2 فروری (سیاست نیوز) حیدرآباد ہائیکورٹ نے تلنگانہ بی سی کمیشن کی تشکیل اور اس کے صدرنشین کی حیثیت سے بی ایس راملو کے تقرر کو چیلنج کرتے ہوئے داخل کی گئی دو علیحدہ درخواستوں کو قبول کرتے ہوئے حکومت اور بی سی کمیشن کو نوٹس جاری کی ہے۔ حیدرآباد ہائیکورٹ کے ڈیویژن بینچ کارگذار چیف جسٹس رمیش رنگناتھ اور جسٹس شمیم اختر نے حکومت اور بی سی کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے موقف کی وضاحت کی ہدایت دی۔ ایم رگھوویندرا پوسٹ گریجویٹ طالب علم اور حیدرآباد کے ایک عام شہری کے رویندر نے یہ درخواستیں داخل کی ہیں جن میں تلنگانہ کمیشن فار بیاک ورڈ کلاسیس (ترمیمی) قانون 2016 کو چیلنج کیا گیا جس کے تحت حکومت نے بی سی کمیشن کی تشکیل اور اس کے صدرنشین کی حیثیت سے بی ایس راملو کے تقرر کی راہ ہموار کی ہے۔ حکومت نے حالیہ سرمائی اجلاس میں اس سلسلے میں ترمیمی بل کو منظوری دی تھی۔ حیدرآباد ہائیکورٹ نے درخواستوں کو قبول کرتے ہوئے حکومت اور بی سی کمیشن کو اندرون چار ہفتے جوابی حلف نامہ داخل کرنے کی ہدایت دی۔ درخواست گزاروں کا استدلال تھا کہ حکومت نے اے پی بیاک ورڈ کمیشن ایکٹ میں ضروری ترمیمات کی ہے اور اس کے ذریعہ ایسی شخصیت کو کمیشن کے صدرنشین کے عہدہ پر فائز کرنے کی راہ ہموار کی گئی جو سماجی جہدکار یا پسماندہ طبقات کے کاز کیلئے کام کرنے والا ہو۔ درخواست گزاروں کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ ایل روی چندر نے بحث کی اور ڈیویژن بینچ کو بتایا کہ سابق میں جتنے کمیشن قائم کئے گئے تھے، ان کی صدارت ریٹائرڈ ججس نے کی، کیونکہ اس عہدہ پر فائز شخص کیلئے قانون پر عبور رکھنا ضروری ہے۔ درخواست گزار نے بتایا کہ قانون میں ترمیم کے ذریعہ حکومت نے جس شخص کو صدرنشین مقرر کیا ہے، وہ قانون میں وضاحت کردہ اہم شخصیات کے زمرہ میں آتے ہیں اور نہ ہی وہ قانون پر عبور رکھتے ہیں۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ تلنگانہ حکومت کا یہ اقدام سپریم کورٹ کے فیصلہ کی خلاف ورزی ہے جس میں دستوری اور قانونی موقف کے حامل کمیشن کے صدرنشین کے عہدہ پر تقررات کے سلسلے میں رہنمایانہ خطوط وضع کئے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے کمیشنوں کو سیاسی دباؤ سے پاک رکھنے کیلئے رہنمایانہ خطوط کی وضاحت کی ہے۔ ایل روی چندر کے دلائل کی سماعت کے بعد ڈیویژن بینچ نے مدعی علیہان کو نوٹسیں جاری کرتے ہوئے جوابی حلف نامہ داخل کرنے کیلئے چار ہفتوں کی مہلت دی ہے۔ واضح رہے کہ ٹی آر ایس حکومت نے ایک تلگو ادیب بی ایس راملو کو بی سی کمیشن کا صدرنشین مقرر کیا جن کے ساتھ تین ارکان کا بھی تقرر کیا گیا۔ قانون کی رو سے اس تقرر کو درست قرار دینے کیلئے بی سی کمیشن ایکٹ میں ترمیم کی گئی۔ ایسے وقت جبکہ حکومت بی سی کمیشن کے ذریعہ مسلم تحفظات کے وعدہ پر عمل آوری کی خواہاں ہے، ہائیکورٹ نے بی سی کمیشن کے قانون اور اس کی تشکیل کو چیلنج کرنا حکومت کیلئے مسائل میں اضافہ کا سبب بن سکتا ہے۔