بی رمن کی زبانی … یعقوب میمن کی حقیقی کہانی

ممبئی ۔ 3 ۔ اگست : ( سیاست ڈاٹ کام ) : اب جب کہ ممبئی سلسلہ وار بم دھماکوں میں ملوث ہونے کی پاداش میں یعقوب میمن کو پھانسی دے دی گئی ہے ۔ ملک میں طوفان آنے سے قبل کی خاموشی چھائی ہوئی ہے ۔ اس خاموشی کے بیچ میں وقفہ وقفہ سے کچھ آوازیں اٹھ رہی ہیں ۔ جس میں کوئی یعقوب میمن کو ہندوستانی خفیہ ایجنٹوں اور قانون سے تعاون کرنے والا شہید قرار دے رہا ہے تو کوئی یعقوب کو غدار قرار دے کر ان کی سزائے موت پر خوشی کا اظہار کررہا ہے ۔ یعقوب میمن کو ان کی 53 ویں سالگرہ کے دن ہی سزائے موت دئیے جانے پر دنیا بھر میں حقوق انسانی کے جہدکار اس کی مذمت کررہے ہیں ۔ ماضی میں مباحث اقتدار کے ایوانوں میں ہوا کرتے تھے لیکن آج کل ٹی وی چیانلوں پر مسئلہ پر گرما گرم مباحث ہورہے ہیں ۔ ایک سیدھے سادھے مسئلہ کو بھی اسے سنسنی خیز انداز میں پیش کیا جارہا ہے کہ دیکھنے اور سننے والا خود کو ٹی وی سے چپکائے رکھنے پر مجبور ہے ۔ یعقوب میمن کو سزائے موت پر عمل آوری کی تاریخ کے طئے کئے جانے سے لے کر تختہ دار پر چڑھائے جانے کے دوران میڈیا میں سب سے زیادہ نام بی رمن کا لیا گیا ۔ وہ معتمدین کابینہ میں ایڈیشنل سکریٹری اور ملک کی خفیہ تنظیم RAW ( ریسرچ اینڈ انالائسس ونگ ) کے پاکستانی ڈیسک کے سربراہ تھے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کا شمار انٹلی جنس بیورو کے ان چنندہ عہدیداروں میں ہوتا ہے جنہوں نے 1968 میں آر این کاوکی جانب سے ریسرچ اینڈ انالائسس ونگ کے وجود میں آنے کا مشاہدہ کیا اور بہت جلد ہندوستان کے مایہ ناز استاذ جاسوس آر این کاو نے انہیں اپنی ٹیم میں شامل کیا ۔ ملک میں فی الوقت عوام یہ جاننے کے خواہاں ہیں کہ بی رمن جیسے اعلیٰ انٹلی جنس عہدیدار نے جس کا یعقوب میمن اور ان کے دیگر ارکان خاندان کو ہندوستان واپس لانے میں اہم رول رہا ۔ آخر یعقوب میمن کی تائید و حمایت میں آخر کیا کیا ہے ۔ اگست 2007 میں مسٹر بی رمن نے ممبئی سلسلہ وار بم دھماکوں کی تحقیقات میں یعقوب میمن کے غیر معمولی تعاون کا حوالہ دیتے ہوئے اسے پھانسی دئیے جانے کی مخالفت کی تھی ۔ یعقوب میمن کو تختہ دار پر چڑھانے سے کچھ یوم قبل ریڈیف ڈاٹ کام نے اس مضمون کی اشاعت کے لیے بی رمن کے بھائی سے خصوصی اجازت حاصل کی ۔ ( کل پڑھئے ۔ میمن برادران اور بم دھماکے )

اس مضمون میں بی رمن نے واضح انداز میں کہا کھٹمنڈو سے غیر رسمی طور پر ( خود سپردگی ) اسے ہندوستان واپس لائے جانے کے بعد جس طرح سے یعقوب میمن نے تحقیقاتی ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کیا اور اپنے چند ارکان خاندان کو پاکستان سے نکل کر ہندوستان آنے کی ترغیب دینے میں جو اہم کردار ادا کیا ۔ میرے خیال میں یعقوب کو سزائے موت دی جانی چاہئے یا نہیں اس سوال پر غور کرنے کے دوران مذکورہ حقائق ذہن نشین رکھے جانے چاہئے ۔ اگست 2007 میں شیلا بھٹ بی رمن کے حوالے سے لکھتی ہیں میں نے یعقوب میمن کا عجیب و غریب مقدمہ اور یعقوب میمن کی سزائے موت کیوں حیرت انگیز ہے کے عنوانات سے دو حصوں پر مشتمل رپورٹ تحریر کی ہے ۔ وہ مزید کہتی ہیں ان رپورٹ کے لکھنے سے قبل انہوں نے ٹیلی فون پر بی رمن کا انٹرویو لیا اس وقت وہ چینائی میں تعینات تھے ۔ وہ اس کہانی کے سخت ناقد تھے کیوں کہ یعقوب میمن کو ترغیب اور مختلف پیشکش ( بلکہ جھانسہ دے کر ) ہندوستان لایاگیا ۔ اس وقت مسٹر رمن ’’ را ‘‘ کے پاکستانی ڈیسک کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے ۔ بی رمن یعقوب میمن کا پتہ چلا کر اس تک رسائی حاصل کرنے اور اسے ہندوستان لاکر قانون کی گرفت میں لانے والے کلیدی انٹلی جنس عہدیداروں میں سے ایک تھے ۔ یعقوب کو ہندوستان واپس لانے کے لیے رامن کی زیر قیادت کی گئی کارروائی کی کامیابی پر اس وقت کے وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ خفیہ ایجنسی کی ٹیم اور بی رمن کی کامیابی سے کافی خوش تھے اور انہوں نے بی رمن کی ستائش کی تھی ۔ بحیثیت مجموعی وہ ایک انٹلی جنس بغاوت تھی ۔ مسٹر رمن 31 اگست 1994 میں سبکدوش ہوئے اور وہ ایسا وقت تھا جب کہ چند دن قبل ہی یعقوب میمن کو ہندوستان واپس لایا گیا تھا ۔ یعقوب میمن کا دعویٰ تھا کہ وہ 19 جولائی 1994 کو اپنی مرضی سے ہندوستان واپس ہوئے تھے جب کہ ہمیشہ اپوزیشن اور عوام کے شکوک و شبہات کے دائرہ میں رہنے والی سی بی آئی ( سنٹرل بیورو آف انوسٹیگیشن ) کا دعویٰ ہے کہ میمن کی 5 اگست 1994 کو نئی دہلی میں گرفتاری عمل میں آئی لیکن نیپال میں یعقوب میمن نے خود سپردگی اختیار کی تھی اس بات میں مسٹر بی رمن اچھی طرح واقف تھے اور شائد انہیں خود سی بی آئی کے دعوے پر سخت حیرت ہوئی ہوگی ۔ مسٹر رمن جو 16 جون 2013 میں انتقال کر گئے ۔ ریڈیف ڈاٹ کام کے لیے سال 2002 سے مسلسل کالم لکھا کرتے تھے ۔ شیلا بھٹ نے سال 2007 میں ایک کالم کی شکل میں وہ تمام حقائق پر مبنی ایک اسٹوری لکھنے کی مسٹر رمن سے خواہش کی جو یعقوب میمن کی گرفتاری اور پھر اسے سزائے موت سنائے جانے سے متعلق تھے ۔ شیلا بھٹ مزید لکھتی ہیں کہ جس دن یعقوب میمن کو سزائے موت سنائی گئی مسٹر رمن کو کافی تکلیف ہوئی وہ ایک عجیب و درد و غم میں مبتلا تھے ۔ چنانچہ انہوں نے صحافی شیلا بھٹ کو فون کرتے ہوئے بتایا کہ یعقوب میمن کو قانون کا سہارا لیتے ہوئے پھانسی کی سزاء سنایا جانا ہندوستانی حکومت کے لیے کیوں غیر درست ہے ۔ مسٹر بی رمن یعقوب میمن کے ساتھ انٹلی جنس ایجنسیوں کے عہدیداروں کی دھوکہ دہی کو دیکھ کر بہت برہم اور پریشان ہوگئے ۔ 2 اگست 2007 کو صبح ساڑھے 9 بجے شیلا بھٹ کے میل باکس میں جلی حروف میں تحریر کردہ رمن کا کالم وصول ہوا ۔ انہوں نے یہ مضمون دراصل ریڈیف ڈاٹ کام میں اشاعت کے لیے شیلا کو بھیجا تھا ۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ اسے فی الوقت استعمال مت کیجئے ہوسکتا ہے کہ اس کے شائع ہونے سے کوئی حقیقی خاطی بچ نکلے گا ۔ مسٹر بی رمن کا 16 جون 2013 کو انتقال ہوا ۔ لیکن انہیں جاننے والا کوئی بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر آج وہ زندہ ہوتے تو ہر روز ایک مضمون لکھتے اور یعقوب میمن کو پھانسی کے پھندے سے بچانے ٹوئٹر کا بھی سہارا لیتے ۔ مسٹر رمن کا استدلال تھا کہ ہندوستانیوں کے لیے اپنا ملک سب سے زیادہ اہم ہے اور ایک ملک اپنے عہد کی پاسداری کرتے ہوئے ہی دنیا میں عزت و وقار کا مقام حاصل کرسکتا ہے ۔ ایک اقتدار اعلیٰ کے برسر خدمت عہدیداروں کی جانب سے کیا گیا وعدہ گفت و شنید کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ایسے میں نظام مملکت کو اس کے نمائندہ کی جانب سے کئے گئے وعدے پر قائم رہنا چاہئے ۔ اگر یعقوب میمن جیسے مشتبہ کردار سے بھی کوئی وعدہ کیا گیا ہو تو اس پر ہمیں قائم رہنا چاہئے ۔ حالانکہ وہ اپنے مادر وطن سے فرار ہو کر ہماری ہمدردی کا مستحق نہیں ہوسکتا ۔ اس کے باوجود وعدہ نبھانا بہت ضروری ہے ۔ مسٹر رمن کا یہ بھی کہنا تھا کہ یعقوب میمن کو دوسرے ملزمین سے علحدہ رکھا جانا چاہئے کیوں کہ اس نے ہندوستان کو اس بات کا موقع فراہم کیا کہ وہ اسے ( یعقوب ) کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو یہ دکھا دے کہ ہندوستان کے انٹلی جنس عہدیداروں نے کس طرح اس کی نظروں کے سامنے سے ایک ہندوستانی کو ہندوستان واپس لاکر اسے ہندوستانی عدالتوں میں پیش کیا ۔ مسٹر بی رمن یہ بھی کہتے ہیں کہ ہندوستان واپس ہونے میں یعقوب میمن کی جو کچھ مجبوری اور منطق رہی ہو ایک بات ضرور ہے کہ اس نے پاکستان کو ذلیل کرنے میں ہندوستان کی مدد کی ۔ یہ وہی پاکستان ہے جس نے ہندوستان کو شدت سے مطلوب دو لوگوں کو پناہ دے رکھی ۔