کانگریس کے لیڈر اور سابق مرکزی وزیر سیف الدین سوز نے کشمیر کے بارے میں سابق صدر پاکستان پرویز مشرف کے خیال کی حمایت کر کے ایک نیا تنازعہ کھڑا کردیا ۔ کانگریس کو بی جے پی کا سخت گیر مقابلہ درپیش ہے اور اس طرح کے حساس مسئلہ پر بیان دینے کا مطلب بی جے پی کی سیاسی جھولی میں مزید ووٹ ڈالنے کا بہانہ بنایا جانا ہے ۔ بی جے پی ، مسئلہ کشمیر پر اپنی سیاست کرتے آرہی ہے ۔ ایسے میں اس کے لیے سیف الدین سوز جیسے کشمیری قائدین کے بیانات عوام کو مزید گمراہ کرنے کا باعث بنتے ہیں ۔ سابق صدر پاکستان پرویز مشرف نے کہا تھا کہ کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے بلکہ وہ تو آزادی چاہتے ہیں اس بیان کو درست اور برموقع کہتے ہوئے حمایت کرنے کے پیچھے یہی منشاء ہوسکتا ہے کہ وادی کشمیر میں موجودہ سیاسی صورتحال کا فائدہ کانگریس کے حق میں پہونچایا جائے ۔ پروفیسر سیف الدین سوز آنے والی کتاب میں مرکز سے بحث کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ اس کو حریت کانفرنس کے ساتھ بات چیت کرنی چاہئے ۔ مسئلہ کشمیر کی یکسوئی سے قبل وادی میں اصل دھارے کی پارٹیوں تک پہونچنے سے قبل حریت کانفرنس کو اعتماد میں لینے کا مشورہ دیا گیا ہے ۔ ماضی میں اس طرح کی مذاکرات کو کافی اہمیت حاصل تھی ۔ مرکز کی سابق حکومتوں نے حریت کانفرنس کے قائدین سے بات چیت کے کئی دور مکمل کئے ہیں مگر اس مسئلہ کو زندہ رکھنے کے پیچھے وہ خفیہ ہاتھ ہیں جو نہیں چاہتے کہ وادی میں امن بحال ہوجائے ۔ کشمیریوں کی اولین پسند کیا ہے اس پر بحث کرنے والے قائدین کو سب سے پہلے کشمیریوں کے حق میں امن بحال کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ پروفیسر سیف الدین سوز کی کتاب میں کشمیر کے تعلق سے جو کچھ رائے ظاہر کی گئی ہے اس بحث سے ہٹ کر اب تک وادی کے عوام کے حق میں مرکزی حکومتوں نے جو اقدامات کئے ہیں ان میں کہاں تک کامیابی ملی ہے اس کا جائزہ لینے اور غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ پرویز مشرف کی رائے کیا ہے اور ان کے خیالات کیا ہیں اس پر توجہ دینے سے زیادہ کشمیریوں کی موجودہ زندگی اور مستقبل کی فکر کی جائے پر کسی نے دیانتدارانہ کوشش نہیں کی ہے ۔ 1953 سے اب تک کئی حکومتوں نے جن میں جواہر لال نہرو ، اندرا گاندھی کی حکومتیں بھی شامل ہیں ہندوستان کی اس اہم ترین سرزمین کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر رہی ہیں ۔ مرکز کو اصل میں وادی کشمیر کا مسئلہ حل کرنا ہے مگر اس کے موجودہ تمام کام اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ثابت ہورہے ہیں ۔ کشمیریوں کے ذہنوں میں جب تک اپنے مستقبل اور خوشحال زندگی کے بارے میں اطمینان بخش ماحول پیدا نہیں ہوتا انہیں پھر اس طرح کے حالات سے باہر نکالا نہیں جاتا اس وقت تک اس ریاست کے بارے میں صرف تبصرے و بیانات جاری ہوتے ہیں تو یہ صرف سیاسی ڈرامہ بازیاں ہوں گی ۔ سابق صدر پاکستان پرویز مشرف نے 2006 میں کہا تھا کہ اگر کشمیریوں کی کوئی پسندیدہ بات کی جانب توجہ دلائی گئی تو وہ خود کی آزادی کو ہی پسند کریں گے ۔ یہ لوگ پاکستان کے ساتھ جانے سے زیادہ ایک آزاد شہری بن کر رہنا پسند کریں گے ۔ لہذا مرکزی حکومت کو وادی میں راحت و سکون کا ماحول پیدا کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے ۔ اگر حکومت ہند سیاسی جذبہ سے زیادہ اپنے فرائض کو روبہ عمل لانے کی کوشش کرے تو بلا شبہ وادی کشمیر کے عوام سرزمین ہند کے اپنے اس اٹوٹ حصہ کی جنت نشان شان کو بحال کرنے میں معاون ہوں گے ۔ اس مسئلہ کو ہر دو جانب سرحد کے ادھر اور سرحد کے اس پار کی سیاسی طاقتوں نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے ہر وقت پیچیدہ بنایا ہے ۔ اب عام انتخابات کی تیاری کی جارہی ہے تو وادی کشمیر کو پھر ایک بار گرما کر سارے ملک کے عوام کی نظروں کے سامنے اس وادی اور وادی کے لوگوں کی غلط تصویر پیش کرتے ہوئے ووٹ مستحکم کرنے کی کوشش ہوگی ۔ ایسی سیاسی چالوں کے ساتھ وادی کشمیر میں امن کے قیام اور اصل دھارے کے لوگوں سے مذاکرات کے منصوبے ، ارادے اور تجاویز سب فضول ثابت ہوں گے ۔۔