ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد اور ضمنی انتخابات میں پارٹی کی مسلسل شکستوں نے بی جے پی صدر امیت شاہ کو پریشان کردیا ہے ۔ وہ اب آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات کیلئے پریشانیوں کاشکار ہوگئے ہیں اور ابھی سے حالات کو سدھارنے اور بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔ امیت شاہ نے ویسے تو تائید کیلئے اہم شخصیتوں سے رابطہ کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے تاہم اب وہ اپنی ناراض حلیف جماعتوں کو منانے میں بھی جٹ گئے ہیں۔ اسی حصے کے طور پر انہوں نے شیوسینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے سے ملاقات کی اور بات چیت کرتے ہوئے دونوں جماعتوں کے مابین اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کی ۔ حالانکہ بی جے پی کی جانب سے صلح کا پرچم لہرادیا گیا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ شیوسینا نے ابھی تک جنگ بندی سے اتفاق کا اعلان نہیں کیا ہے ۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جس وقت سے ملک میں اپوزیشن جماعتوں نے آپس میں اتحاد کی شروعات کی اور اس کے نتائج کامیابی کے صورت میں سامنے آنے لگے اس وقت سے بی جے پی کے خیمے میں ہلچل پیدا ہوگئی ہے ۔ بی جے پی کے قائدین بھلے ہی اس کھلے عام اعتراف کرنے سے گریز کریں لیکن وہ داخلی طور پر اس بات کے معترف ہونے لگے ہیں کہ بی جے پی کو متحدہ اپوزیشن کا مقابلہ کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں اور جہاں تک مودی اور امیت شاہ کی جوڑی کے توڑ جوڑ کا سوال ہے وہ بھی متحدہ کوششوں کے سامنے کامیاب نہیں ہو پا رہا ہے ۔ اس اتحاد کی شروعات اترپردیش میں پھولپور اور گورکھپور لوک سبھا حلقوں سے ہوئی تھی ۔ ان انتخابات میں یوگی آدتیہ ناتھ اور کیشو پرساد موریہ کی نشستوں پر بی جے پی کو کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور یہیں سے اپوزیشن میں اتحاد کے تعلق سے امیدیں پیدا ہوئی تھیں۔ یہ امیدیں کیرانہ میں جا کر مزید مستحکم ہوگئیں جہاں آر ایل ڈی امیدوارہ تبسم حسن نے بی جے پی کو اس کے گڑھ سمجھے جانے والے حلقہ میںشکست سے دوچار کرتے ہوئے کامیابی حاصل کرلی ۔ گذشتہ دنوں چار لوک سبھا حلقوں میں بی جے پی کو صرف ایک پر کامیابی حاصل ہوئی ۔
چار نشستوں میں بی جے پی کو اپنی دو نشستیں گنوانی پڑیں اور وہ لوک سبھا میں اپنے بل پر اکثریت سے محروم ہوگئی ۔ بی جے پی کیلئے یہ آثار اچھے نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ آئندہ مہینوں میں مدھیہ پردیش ‘ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بھی انتخابات ہونے والے ہیں اور وہاں بھی بی جے پی کیلئے مثبت اشارے نہیں ہیں۔ مدھیہ پردیش میں تو کانگریس نے بہوجن سماج پارٹی سے ابھی سے اتحاد کرلیا ہے اور یہ اتحاد عوام کے درمیان پہونچ رہا ہے ۔ کانگریس صدر راہول گاندھی نے چہارشنبہ کو منڈسور میں کسان ریلی کرتے ہوئے بی جے پی کے خیمے میںمزید بے چینی پیدا کردی ہے ۔ راجستھان میں وسندھرا راجے حکومت بھی عوام کے اعتماد سے محروم ہوتی نظر آ رہی ہے اور وہ وہاں حالات پرگرفت کھوتی جا رہی ہے ۔ اس کے علاوہ چھتیس گڑھ میں رمن سنگھ حکومت سے بھی ریاست کے عوام بیزار ہونے لگے ہیں۔ یہ تینوں ریاستوں کے انتخابات آئندہ عام انتخابات سے قبل ہونے والے ہیں اور اگر یہاں بی جے پی کو مشکلات نے گھیر لیا اور پارٹی کو شکست ہوگئی تو اس کے لازمی اثرات آئندہ سال کے عام انتخابات کے نتائج پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے بی جے پی نے اپنی مشکلات پر قابو پانے کا عمل شروع کردیا ہے ۔ امیت شاہ کو یقین ہے کہ وہ تن تنہا ایسی کوششوں کو آگے بڑھاتے ہوئے خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
امیت شاہ کی کوششیں کتنی کامیاب ہونگی اس کے اشارے تو ملنے شروع ہوگئے ہیں۔ حالانکہ وہ اپنی انا کو پس پشت ڈال کر خود پہل کرتے ہوئے ادھوٹھاکرے سے ملنے ماتو شری پہونچ گئے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس کا شیوسینا پر کوئی خاص اثر دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ شیوسینا وہ ہزیمت فراموش کرنے تیار نہیں ہے جو اسے ریاست کی دیویندر فرنویس حکومت کی وجہ سے برداشت کرنی پڑ ی ہے ۔ اس کے علاوہ مہاراشٹرا میں کانگریس اور این سی پی کے مابین بھی اتحاد کے اشاروں نے بی جے پی کو الجھن کا شکار کردیا ہے ۔ آج بی جے پی جن بڑی ریاستوں میں اقتدار پر قابض ہے ان میں مہاراشٹرا بھی شامل ہے اور اگر چھتیس گڑھ ‘ مدھیہ پردیش اور راجستھان کے ساتھ مہاراشٹرا بھی اس کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں تو پارٹی کیلئے مرکز میں اقتدار حاصل کرنا یا پھراسے برقرار رکھنا ممکن نہیں رہ جائیگا ۔ اسی لئے اپوزیشن اتحاد کے اثرات کو تلف کرنے کیلئے امیت شاہ سرگرم ہوگئے ہیں لیکن شائد اس کے انہیںخاطر خواہ نتائج دستیاب نہیں ہوپائیں گے ۔