بی جے پی کی انتخابی مہم

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
بی جے پی کی انتخابی مہم
گجرات اور ہماچل پردیش میں انتخابی سرگرمیوں کا آغاز ہوچکا ہے ۔ پہلے ہماچل پردیش میں انتخابات ہونگے اور پھر گجرات کی باری آئے گی ۔ ایسا لگتا ہے کہ گجرات میں جو حالات پیدا ہو رہے ہیں اور نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے جو مشکلات اب محسوس کی جا رہی ہیں ان کو دیکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے دونوں ریاستوں میں انتخابات میں وقفہ رکھا ہے تاکہ بی جے پی کے قائدین اور خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کو انتخابی مہم میں حصہ لینے کیلئے زیادہ وقت مل سکے اور ہر ریاست پر پوری توجہ دی جاسکے ۔ ہماچل پردیش میں اب مہم شدت اختیار کرتی جا رہی ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی مسلسل ہماچل پردیش کے دورے کرتے ہوئے انتخابی جلسوں اور ریلیوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ بی جے پی کے پاس ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں ریاستو ں میں انتخابات کا سامنا کرنے کیلئے کوئی ترقیاتی ایجنڈہ یا پروگرام ریاستی سطح پر موجود نہیں ہے اور وہ صرف وزیر اعظم نریندرمودی کی شخصی مہم پر ہی اکتفا کر رہی ہے ۔ یہی طریقہ بی جے پی نے بہار میں اختیار کیا تھا جہاں اسے ناکامی کا سامناکرنا پڑا ۔ یہی طریقہ بی جے پی نے اترپردیش اور دوسری ریاستوں میں اختیار کیا تھا ۔ اترپردیش میں تو فرقہ پرستی کو عروج دیا گیا تھا ۔ خود وزیر اعظم نے قبرستان و شمشان جیسے ریمارکس کرتے ہوئے سماج کے دو اہم طبقات میں دراڑیں پیدا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی ۔ گوا اور منی پور میں بی جے پی کو اکثریت حاصل نہ ہوسکی اور اس نے عقبی دروازے سے اقتدار ہتھیانے میں کامیابی حاصل کرلی ۔ پنجاب میں کانگریس نے بہترین کامیابی حاصل کی تھی ۔ اب جب ہماچل پردیش اور گجرات کے انتخابات ہونے والے ہیں تب بھی ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کی ساری انتخابی مہم صرف وزیر اعظم نریندرمودی کی شخصیت اور ان کے دوروں پر ہی ٹکی ہوئی ہے ۔ پارٹی نے ابھی ان ریاستوں کے تعلق سے کوئی انتخابی ایجنڈہ یا پھر منشور تیار نہیں کیا ہے اور نہ ہی وہ ان دونوں ریاستوں میں کوئی خاطر خواہ ترقیاتی منصوبہ یا ایجنڈہ پیش کرنے میں کامیاب ہوسکی ہے ۔ہماچل کے بعد یہ ساری سرگرمیاں یکلخت گجرات منتقل ہوجائیں گی اور وزیر اعظم کے گجرات دورے شروع ہوجائیں گے ۔
حالانکہ ہماچل پردیش میں پریم کمار دھومل کو بی جے پی نے اپنا وزارت اعلی امیدوار نامزد کردیا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ انتخابی مہم میں وہ کہیں پس منظر میں چلے گئے ہیں اور صرف نریندر مودی کی شخصیت پر اکتفا کیا جا رہا ہے ۔ ہماچل پردیش میں انتخابی مہم اور جلسوں شرکت کرتے ہوئے وزیر اعظم ریاست کی ترقی اور بی جے پی کے ایجنڈہ کے تعلق سے زیادہ بات کرنے کی بجائے صرف کانگریس کو تنقیدوں کا نشانہ بنانے پر اکتفا کر رہے ہیں۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے امور پر توجہ دی جا رہی ہے اور راہول گاندھی پر تنقیدیں ہو رہی ہیں۔ یہ سب کچھ اس لئے ہے کیونکہ حالیہ عرصہ میں راہول گاندھی کے سیاسی کام کاج کا انداز بدلا ہے اور عوام میں ان کو قبول کیا جانے لگا ہے ۔ ان پر ہونے والی سوشیل میڈیا کی تنقیدیں حالانکہ کم نہیں ہوئی ہیں لیکن ان کی عوامی مقبولیت کا گراف تیزی سے بڑھا ہے ۔ ان کے طرز عمل کو پسند کیا جانے لگا ہے اور یہ بات بی جے پی کو پریشان کرنے کا باعث بن رہی ہے ۔ ان امور کو انتخابات میں موضوع بنایا جا رہا ہے جبکہ ان کا ریاستی سیاست یا پھر ریاست کی ترقی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ریاستوں کے مسائل مختلف ہوتے ہیں اور ریاستی حکومتوں کی ذمہ داری محدود ہوتی ہے ۔ انہیں ریاست کی ترقی کے منصوبے اور ایجنڈہ کے ساتھ عوام سے رجوع ہونا پڑتا ہے ۔ اس کو کہیں پس پشت ڈال دیا گیا ہے اور صرف کانگریس پر تنقیدوں کے ذریعہ عوام میں ایک طرح کی الجھن پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
اب جہاں ہماچل پردیش میں انتخابی سرگرمیوں میں شدت پیدا ہوگئی ہے وہیں مودی بھی ساری توجہ اسی ریاست پر مبذول کرچکے ہیں۔ بی جے پی گجرات میں بھی نریندر مودی کے 50 سے زیادہ انتخابی جلسوں اور ریلیوں کا منصوبہ رکھتی ہے ۔ یہاں بھی اس کے پاس موجودہ چیف منسٹر روپانی کو عوام میں مقبولیت دلانے والا کوئی پروگرام نہیں ہے ۔و ہ ریاست کے مختلف طبقات میں حکومت کے تعلق سے پیدا ہوئی بے چینی کا جواب دینے اور انہیں مطمئن کرنے کا کوئی ہتھکنڈہ باقی نہیں رہ گیا ہے ۔ سابقہ چیف منسٹر آنندی بین پٹیل کو عہدہ سے ہٹائے جانے کا جواب دینے کے موقف میں بھی پارٹی نہیں ہے ۔ ایسے میں وہاں بھی صرف نریندر مودی کی انتخابی ریلیوں اور صدر بی جے پی امیت شاہ کی سیاسی توڑ جوڑ پر ہی اکتفا کیا جارہا ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کے پاس کوئی ترقیاتی ایجنڈہ یا منصوبہ نہیں ہے اور وہ صرف شخصیت پرستی کے سہارے عوام کی تائید و حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ عوام کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے ۔