بی جے پی کو دلتوں کی پرواہ نہیں

رام پنیانی
حالیہعرصہ میں دلتوں پر مظالم کی روک تھام یا انسداد سے متعلق قوانین میں ضمانت قبل از گرفتاری کی شق شامل کرتے ہوئے انہیں کمزور بنایا گیا ، جس کے بعد سارے ملک میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے اور ان مظاہروں میں بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے کی مخالف دلت فطرت و روش کو اُجاگر کیا گیا۔ مظاہرین نے اپنے احتجاج کے ذریعہ دلتوں کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ مودی حکومت دلت مخالف ہے۔ دلت تنظیموں کے احتجاجی مظاہروں سے گھبراکر حکومت شدید دباؤ میں آگئی اور پھر اُسے مذکورہ قوانین کی سابق دفعات کو بحال کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ لوک سبھا نے 6 اگسٹ 2016 کو متفقہ طور پر سپریم کورٹ کے اُس حکم کے اثرات ختم کرنے ایک بل کو منظوری دی جو ایس سی، ایس ٹی ایکٹ کے تحت گرفتاریوں کے خلاف بعض تحفظات فراہم کرتا تھا۔
اب ترمیم شدہ درج فہرست و قبائل ( انسداد مظالم ) ترمیمی بل 2018، درج فہرست طبقات و قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد پر مظالم ڈھانے والے ملزمین کو ضمانت قبل از گرفتاری دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس قانون کو پہلے کی طرح بحال کرنے پر مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان نے جن کی پارٹی این ڈی اے کا اہم حصہ ہے وزیر اعظم نریندر مودی سے اظہار ممنونیت کیا اور ساتھ ہی کانگریس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

کانگریس کو مخالف دلت ثابت کرنے کیلئے رام ولاس پاسوان نے ان انتخابات کے حوالے دیئے جس میں کانگریس نے دستور ہند کے معمار بابا صاحب امبیڈکر کے خلاف مقابلہ کیا تھا۔ ویسے بھی امبیڈکر کے نظریات سے رام ولاس پاسوان کی وفاداری خود مشکوک ہے کیونکہ وہ ایک ایسی پارٹی بی جے پی کے اتحادی ہیں اور اسے طاقتور بنانے میں مدد کررہے ہیں جس کا ایجنڈہ ہی ہندوستان کو ہندو راشٹرا میں تبدیل کرنا ہے۔ یہ ایسا ایجنڈہ ہے جو ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کیلئے ایک بددعا کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے ہمیشہ سماجی انصاف، سیکولرازم اور جمہوریت کی بات کی ہے اور ہندو راشٹرا فرقہ پرستی کے نظریہ کو ٹھکرایا ہے۔
رام ولاس پاسوان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سیاسی موسم کی پیش قیاسی کرنے والی شخصیت ہے جو ہمیشہ اقتدار میں رہنے کیلئے اپنا نظریاتی موقف بار بار بدلتے رہتے ہیں اور نظریات پر بآسانی سمجھوتہ کرلیتے ہیں۔ ان کا اپنا نظریہ دراصل اقتدار کی بھوک ہے۔ انہوں نے امبیڈکر اور کانگریس کے درمیان انتخابی جنگ کا جو حوالہ دیا وہ ان تعلقات کی چنندہ پیشکش کہی جاسکتی ہے۔پاسوان یہ بھول گئے کہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کبھی بھی کانگریس کے ایک رکن نہیں رہے اور وہ یہ بھی شائد بھول گئے کہ اسی کانگریس پارٹی نے اپنی حکومت میں امبیڈکر کو کابینی وزیر کی حیثیت سے شامل کیا۔ پاسوان کو یہ بھی یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ امبیڈکر نہ صرف ہندوستان کی پہلی کابینہ میں شامل تھے بلکہ انہیں دستور ہند کے مسودہ کی تیاری کرنے والی کمپنی کا صدرنشین بھی بنایا گیا تھا۔ اس میں بابا صاحب امبیڈکر نے اہم کردار ادا کیا۔ وہ ڈاکٹر امبیڈکر ہی تھے جن سے ہندو کوڈ بل مسودہ بھی تیار کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

پاسوان جیسے لوگ جو اقتدار کے پیچھے دوڑتے ہیں اور حصول اقتدار کیلئے امبیڈکر کا نام لیتے ہیں ایسے لوگ امبیڈکر کی جانب سے تیار مسودۂ دستور کے کٹر مخالفین کو فراموش کرجاتے ہیں اور پاسوان نے بھی جان بوجھ کر ایسا کیا ہے۔ ہندو کوڈ بل کی سب سے زیادہ مخالفت آر ایس ایس نے کی، آر ایس ایس فی الوقت ہندوستان میں اقتدار پر فائز جماعت بی جے پی کی سرپرست تنظیم ہے جس سے اتحاد کے ذریعہ پاسوان اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں، مراعات حاصل کررہے ہیں۔بی جے پی کی موجودہ پالیسیوں و پروگرمس اور ایجنڈوں کے بارے میں کوئی بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ ہندو راشٹرا سے متعلق پاسوان کی حلیف جماعت بی جے پی کا ایجنڈہ بابا صاحب امبیڈکر کے خوابوں کے خلاف ہے۔ بابا صاحب امبیڈکر نے آزادی ، مساوات و اخوت اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان بھائی چارہ اور ایک سیکولر جمہوری ہندوستان کا خواب دیکھا تھا جبکہ آر ایس ایس نے دستور ہند پر تنقید کرنے میں کبھی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ اُسے مغربی دستور قرار دیا۔ اس طرح بی جے پی نے کبھی بھی ہندو قوم پرست آر ایس ایس میں پیوست آنول کو اس سے علیحدہ کرنے کی کوششنہیں کی اور اب تو بی جے پی میں خود اوپر سے لیکر نیچے تک ہندو قوم پرستی کا پروپگنڈہ کیا جارہا ہے۔ اور ہندوتوا پر عمل کیا جارہا ہے۔

عام انتخابات 2014 کے موقع پر عہدہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی نے اعلان کیا کہ وہ ایک ہندو خاندان میں پیدا ہوئے وہ ایک قوم پرست ہیں اس لئے وہ ہندو قوم پرست ہیں۔ مودی کابینہ میں شامل ایک اور وزیر اننت کمار ہیگڈے کا کہنا ہے دستور ہند کی تبدیلی کیلئے ہی بی جے پی اقتدار پر آئی ہے اور عوام کو سیکولر شناخت استعمال نہیں کرنی چاہیئے۔
ان تمام سے آگے بڑھتے ہوئے چیف منسٹر اُتر پردیش یوگی آدتیہ ناتھ کا کہنا ہے کہ سیکولرازم آزاد ہندوستان کا سب سے بڑا جھوٹ ہے اور جہاں تک دلتوں کا معاملہ ہے بی جے پی بہت احتیاط سے قدم اٹھا رہی ہے۔ اپنے قول و فعل میں وہ ایک قسم کا توازن قائم رکھنے کی کوشش کررہی ہے۔ بی جے پی خود کو موافق دلت کی حیثیت سے پیش کرنے کی ممکنہ کوشش میں مصروف ہے اور دوسری طرف پاسوان، اودت راج اور رام داس اتھاولے جیسے اقتدار کے بھوکے دلت لیڈر بی جے پی کے کاموں اور اس کے اقدامات کو موافق دلت قرار دینے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ ایسے میں ہیگڈے اور یوگی جیسے لوگ اپنے سیاسی ایجنڈہ کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔ یہ بھی سچ ہے کہ سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے اور انتخابی فوائد حاصل کرنے کی خاطر بی جے پی کو بھی ڈاکٹر بی آر امبیڈکر سے وفاداری اور قربت کا دَم بھرنا پڑرہا ہے۔ حالانکہ بی جے پی کا جو ایجنڈہ ہے وہ ڈاکٹر امبیڈکر کے سیاسی نظریات کے متضاد ہے۔
اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کے زیر قیادت این ڈی اے کے جس کے پاسوان جیسے لوگ ارکان ہیں دلتوں پر سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ دلتوں کوسوجل دیو اور شابری ماتا و دیگر کے ذریعہ اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ شخصیتیں دلت مخالف عناصر کی تخلیق ہے ان لوگوں نے ایسی پالیسیاں نافذ کی جس سے دلتوں کو ہر سطح پر متاثر ہونا پڑا۔
جب اونا میں دلتوں کو بیدردانہ انداز میں زدوکوب کیا گیا پاسوان نے اُسے ایک چھوٹا یا معمولی واقعہ قرار دے کر مسترد کردیا۔ حالانکہ ’’ گاؤ ماتا ‘‘ کے جذباتی مسئلہ نے دلتو ں کی زندگی کو شدید متاثر کیا۔ ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ روہت ویمولا کا ادارہ جاتی قتل اور بھیما کورے گاؤں میں دلتوں پر حملہ سے ایسا لگتا ہے کہ ملک میں دلتوں پر ہزاروں سال سے جاری ظلم و بربریت کاسلسلہ ختم ہونے والا نہیں ہے۔ روہت ویمولہ کے قتل اور بھیما کورے گاؤں میں دلتوں پر حملہ کے نتیجہ میں بی جے پی اور آر ایس ایس نے پہلی مرتبہ دلتوں کی جانب سے کی جانے والی شدید مخالفت کا مشاہدہ کیا۔ انہیں اندازہ ہے کہ کامیابی کیلئے دلتوں کی تائید و حمایت ضروری ہے ورنہ وہ کہیں کے نہیں رہیں گے۔آج بی جے پی کو امبیڈکر کے مجسموں پر پھول مالائیں چڑھانا، گلہائے عقیدت پیش کرنا ضروری ہوگیا ہے اور یہ سب اسے سیاسی فوائد حاصل کرنے کیلئے کرنا پڑ رہا ہے ورنہ بی جے پی کو امبیڈکر اور دلتوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔