بی جے پی کا مخالف مسلم ایجنڈہ

ہے خوف مسیحا کو بھرم ٹوٹ نہ جائے
اور قوم ہے بیمار مسیحاؤں کے ڈر سے
بی جے پی کا مخالف مسلم ایجنڈہ
کرناٹک اسمبلی انتخابات کے لیے رائے دہی کا دن جوں جوں قریب آرہا ہے ، انتخابی مہم کی شدت میں اضافہ کے ساتھ رائے دہندوں کو رجھانے یا گمراہ کرنے ہر طرح کے حربے بھی استعمال کیے جارہے ہیں ۔ کانگریس دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کو یقینی بنانے کی خاطر سماج کے ہر طبقہ کے لیے کچھ نہ کچھ منصوبے پیش کررہی ہے ۔ جب کہ بی جے پی کا ایک نکاتی ایجنڈہ مخالف مسلم مہم ہے ۔ سنگھ پریوار نے جنوبی ہند کی اس ریاست میں بی جے پی کو کامیاب بنانے کے لیے کسی بھی حد تک گمراہ کن مہم چلانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران کھلے عام نہ سہی سوشیل میڈیا اور گھر گھر مہم کے دوران مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے کے لیے کوئی وقت ضائع نہیں کیا جارہا ہے ۔ خاص کرناٹک کے علاقہ ’ بھٹکل ‘ کو بھٹکلیوں کے سامنے ہی ’ دہشت گرد ٹاؤن ‘ قرار دینے والے بی جے پی اور سنگھ پریوار کارکنوں نے یہاں تک کہنا شروع کیا ہے کہ اگر اس مرتبہ کرناٹک میں خاص کر بھٹکل میں بی جے پی کو ناکام بنایا گیا تو پھر یہ شہر مسلم دہشت گردوں کا ٹاؤن بن جائے گا ۔ اس علاقہ کے ایک حصہ کی نمائندگی مرکزی وزیر اننت کمار ہیگڈے کرتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کے لیے وہ اپنے حلقہ میں کافی مقبول ہیں ۔ فرقہ پرستانہ ریمارکس کے ساتھ ہیگڈے بھٹکل کے مسلمانوں اور تمام ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کے لیے کوئی موقع ضائع نہیں کرتے ۔ بھٹکل کی نشست بی جے پی کی جھولی میں ڈالنے کے لیے وہ ہر سطح تک جاسکتے ہیں ۔ کانگریس کے امیدوار اور موجودہ رکن اسمبلی شکلا سبہا ویدیا کو بھٹکل کی مسلم تنظیموں سے امید ہے اگر چیکہ انہوں نے اب تک اس علاقہ میں کوئی خاص کام نہیں کیا لیکن یہاں مسلمان کانگریس کو ہی ووٹ دیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا کرناٹک کی سدارامیا حکومت اس مرتبہ بی جے پی کی سرکاری مشنری کے ساتھ چلائی جانے والی انتخابی مہم اور گمراہ کن پروپگنڈہ کے سامنے بقا پا سکے گی ۔ مخالف حکمرانی لہر کے امکان کے ساتھ بی جے پی نے اپنی توقعات کو قوی کرلیا ہے ۔ سنگھ پریوار کا ہر بڑا اور چھوٹا لیڈر بی جے پی کو کامیاب بنانا اپنی اولین ذمہ داری سمجھ چکا ہے ۔ اس لیے کرناٹک میں سب سے زیادہ زور ’ کاؤ جہاد اور لو جہاد ‘ پر دیا جارہا ہے ۔ اس انتخابی مہم میں وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی صدر امیت شاہ کے علاوہ دیگر قائدین تو سرگرم ہیں لیکن اندرونی طور پر آر ایس ایس انچارج برائے کرناٹک تلنگانہ اور آندھرا پردیش ڈاکٹر کلاڈکر پربھاکر بھٹ کرناٹک کے ساحلی اضلاع خاص کر رکھشنا کنڑا میں مہم چلانا شروع کی ہے ۔ ڈاکٹر کلاڈکر پربھاکر بھٹ کو جنوبی ہند کا بال ٹھاکرے سمجھا جاتا ہے ۔ وہ ریاستی صدر بی ایس یدی یورپا کو کامیاب کروانے کی جدوجہد کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ ان کی فرقہ پرستانہ سوچ نے ماحول کو کشیدہ بنادیا ہے ۔ بی جے پی کی انتخابی مہم اور انتخابی حکمت عملی دونوں ہی مضبوط دکھائی دیتے ہیں ۔ ایسے میں ایک طرف مسلمانوں کے ووٹ منقسم کروانے کے لیے کچھ نئی پارٹیوں کو میدان میں اُتارا گیا ہے تو دوسری طرف جنتا دل ایس کی تعریب و ستائش کرتے ہوئے مودی نے انتخابی فضاء کی سمت ہی تبدیل کردی ہے ۔ کرناٹک کی مہیلا امپاورمنٹ پارٹی نے کرناٹک کے تمام 224 حلقوں سے امیدوار کھڑا کیے ہیں جب کہ اس پارٹی کا خفیہ ایجنڈہ بی جے پی کو کامیاب بنانا ہے تو یہ 6 ماہ پرانی پارٹی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے گی کیوں کہ اس نے خواتین کو بااختیار بنانے کے نعرے کے ساتھ پارٹی قائم کی لیکن پارٹی کے امیدواروں میں خواتین کم دکھائی دیتی ہیں بلکہ پارٹی کی خاتون سربراہ اپنے تجارتی مفادات کی خاطر میدان سیاست کو آزمانے کی کوشش کی ہے ۔ بی جے پی کا ساتھ کانگریس کو کمزور کرنے کا موجب نہیں بن سکتا ۔ مگر کانگریس خود اپنی غلط پالیسیوں اور مسلمانوں سے کی گئی نا انصافیوں کی وجہ سے ناکامی کا منہ دیکھے گی ۔ اس نے کرناٹک کی آبادی میں 13 فیصد مسلم آبادی میں سے صرف 17 مسلمانوں کو امیدوار بنایا ہے جب کہ مطالبہ کیا جارہا تھا کہ ہر ضلع سے ایک مسلم کو کانگریس ٹکٹ دیا جائے جب مسلم نمائندگی کی تعداد گھٹ جائے تو کامیابی کے امکانات موہوم ہوتے ہیں ۔۔