بی جے پی کا انتخابی منشور ؟

کوئی مقصد بھی نہیں کوئی ارادہ بھی نہیں
آرزو ہے انھیں جمہور کی تائید ملے
بی جے پی کا انتخابی منشور ؟
انتخابات کی لڑائی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے ۔ ہر گذرتا دن اس انتخابی جنگ کو مزید گھمسان بناتا جا رہا ہے ۔ سیاسی جماعتوں پر ایک دوسرے کے حملے بڑھتے جا رہے ہیں اور رائے دہندوںکو رجھانے اور راغب کرتے ہوئے ان کے ووٹ زیادہ سے زیادہ تعداد میں حاصل کرنے کیلئے ہر جماعت سرگرم ہوچکی ہے ۔ ہندوستان میں انتخابات کے دوران یہ روایت رہی ہے کہ ہر جماعت ‘ جو عوام کے سامنے کوئی پروگرام یا ترقیاتی ایجنڈہ پیش کرنے میں سنجیدہ ہو ‘ ان کے سامنے اپنا منشور پیش کرتی ہے ۔ کچھ نئے منصوبے پیش کرتے ہوئے عوام سے وعدے کئے جاتے ہیں اور ان سے ترقیاتی پروگرام کی تائید میں ووٹ حاصل کئے جاتے ہیں۔ اس بار کے انتخابات میں جو صورتحال ہے وہ جمہوری عمل کا حصہ محسوس نہیں ہوتی بلکہ ایسا لگتا ہے کہ جمہوریت کی نفی کرتے ہوئے انتخابات لڑے جا رہے ہیں اور پھر یہ ادعا کیا جارہا ہے کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں اور اس عمل کا حصہ بننا ہمارے لئے قابل فخر ہے ۔ حقیقت یہی ہے کہ اس جمہوری عمل کا حصہ بننا ہمارے لئے قابل فخر ہی ہے لیکن جس انداز سے آج جمہوریت کو داغدار کیا جارہا ہے اس عمل کا حصہ بننا ملک کے رائے دہندوں کیلئے قابل شرم ہوتا جا رہا ہے ۔ بی جے پی نے ‘ جو اب اقتدار کی سب سے بڑی دعویدار کے طور پر خود کو پیش کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہی ہے ‘ ابھی تک اپنے انتخابی منشور کی اجرائی عمل میں نہیں لائی ہے اور 7 اپریل کو وہ منشور جاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جب کہ ملک میں سات مراحل کے منجملہ ایک مرحلہ کی رائے دہی مکمل بھی ہوجائیگی ۔ جب ایک مرحلہ کی رائے دہی ہو جائے گی اس وقت منشور کی اجرائی بے معنی سا عمل ہو کر رہ جائیگی کیونکہ کروڑوں رائے دہندے تو پہلے ہی اپنے ووٹ کا استعمال کرچکے ہونگے ۔ آئندہ مراحل کیلئے بھی بی جے پی اسی طرز عمل کو اختیار کرتے ہوئے رائے دہندوں کے سامنے کسی ترقیاتی پروگرام یا ایجنڈہ پر پیش ہونے کی بجائے صرف شخصیت پرستی ‘ موقع پرستی اور توڑ جوڑ کی سیاست سے ہی کام چلاسکتی ہے اور وہ سماج میں نفرت کی دیوار کھڑی کرسکتی ہے ۔ یہی اس کا طرز عمل رہا ہے اور اس نے ہمیشہ ہی سماج میں اور عوام میں تفرقہ پیدا کیا اور نفرت کو فروغ دیتے ہوئے اپنی سیاست کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے جو سارے ملک کے عوام بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں۔
بی جے پی اس بار اقتدار حاصل کرنے کیلئے جو جان توڑ کوششیں کر رہی ہے وہ سب پر ظاہر ہے لیکن اس کے پاس نہ کوئی ترقیاتی ایجنڈہ دکھائی دیتا ہے اور نہ اس کے پاس کوئی منشور ہے ۔ وہ صرف شخصیت پرستی پر ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ اس نے نریندر مودی کی تشہیر کو اپنا انتخابی حربہ بنالیا ہے اور نریندر مودی کسی طرح کے ایجنڈہ یا پروگرام کو پیش کرنے کی بجائے خوفزدہ کرنے کی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ایک سے زائد موقعوں پر پاکستان کے حوالے دیتے ہوئے عوام کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ نریندر مودی کی موقع پرستی ہے اور اس سے ان کی منفی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے ۔ ‘ اس طرح کی کوشش نریندر مودی کیلئے ‘ جو حب الوطنی کا دعوی کرتے ہیں ‘ ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت ہے ۔ وہ ایک طرح سے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان ‘ ہندوستان پر مسلط ہوجائیگا ۔ یہ ہندوستانی مسلح افواج کی صلاحیتوں سے انکار یا نفی کے مترادف ہے اور اس سے ہماری مسلح افواج کے حوصلے پست کرنے کی بات ہوگی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری مسلح افواج کی تندہی اور ان کی قربانیوں اور صلاحیتوں کی وجہ سے ہماری علاقائی سلامتی کا تحفظ ہو رہا ہے اور ساری قوم ان کے بھروسہ پر چین کی نیند سو رہی ہے ۔ اب مودی اپنے انتخابی فائدہ کیلئے فوج کے حوصلے بھی پست کرنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں ۔
بی جے پی ‘ اقتدار حاصل کرنے کیلئے جو حکمت عملی اختیار کرر ہی ہے وہ چکاچوند والی ہے اور تشہیر پر اس کا زیادہ انحصار ہے ۔ پارٹی زندگی کے مختلف گوشوں سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیتوں کو ٹکٹ دیتے ہوئے ان کی مقبولیت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ پارٹی یا اس کے وزارت عظمی امیدوار نریندر مودیا اقتدار کی ہوس یا لالچ میں دوسروں کو پاکستان کے ایجنٹ یا قوم دشمن قرار دینے سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں۔ وہ ملک کے وزیر دفاع کو تک پاکستانی ایجنٹ قرار ددے رہے ہیں ۔ یہ ان کے ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت ہے اور یہ پتہ چلتا ہے کہ اقتدار حاصل کرنے کی ہوس میں وہ اقدار اور اصولوں کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔ وہ ملک کے عوام کو گمراہ کر رہے ہیں اور ان کے سامنے کوئی منصوبہ یا پروگرام پیش کئے بغیر ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور یہ ہندوستانی جمہوریت کی روایات کے یکسر مغائر ہے ۔ جمہوریت کے ذریعہ اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرنے والوں کا یہ غیر جمہوری طرز عمل افسوسناک ہے ۔