بی جے پی پر نفرت کی سیاست پر گامزن ہونے کا الزام

تلنگانہ بھون میں یوم انضمام تقریب، نظام دور میں تلنگانہ کی ترقی، محمود علی اور نرسمہا ریڈی کا خطاب
حیدرآباد ۔ 17۔ستمبر (سیاست نیوز) کارگزار ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی اور کارگزار وزیر داخلہ این نرسمہا ریڈی نے بی جے پی کی جانب سے 17 ستمبر حیدرآباد کے یوم انضمام کو یوم نجات کے طور پر منانے پر سخت تنقید کی۔ انہوں نے سرکاری سطح پر تلنگانہ کی یوم آزادی تقاریب کے انعقاد کے مطالبہ کو مسترد کردیا۔ محمود علی اور این نرسمہا ریڈی نے آخری نظام نواب میر عثمان علی خاں کی رعایا پروری کو خراج پیش کیا اور کہا کہ نظام دور حکومت میں تلنگانہ کی ترقی ہوئی جبکہ آندھرائی حکمرانوں نے تلنگانہ کو ہر طرح سے نظر انداز کردیا تھا۔ ٹی آر ایس ہیڈکوارٹر تلنگانہ بھون میں آج یوم انضمام تقاریب منائی گئی اور این نرسمہا ریڈی نے قومی پرچم لہرایا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے محمود علی نے کہا کہ بی جے پی عوام میں نفرت پیدا کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یوم انضمام کو یوم نجات یا یوم آزادی قرار دینا ہرگز درست نہیں ہے۔ تلنگانہ راشٹرا سمیتی نظام حیدرآباد کی فلاحی اور تعلیمی اقدامات کا اعتراف کرتی ہے ، لہذا تلنگانہ میں سرکاری طور پر یوم آزادی تقاریب کے انعقاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ محمود علی نے کہا کہ ملک کی آزادی کے بعد دیگر ریاستوں میں موجود راجہ مہاراجہ کی طرح نظام حیدرآباد نے بھی اپنی مرضی سے حیدرآباد اسٹیٹ کا انڈین یونین میں انضمام کیا۔ انہوں نے کہا کہ 17 ستمبر کو دستاویزات کا تبادلہ عمل میں آیا۔ محمود علی نے کہا کہ نظام حیدرآباد کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ تلنگانہ میں آبپاشی پراجکٹس اور تاریخی عمارتیں نظام حیدرآباد کی دین ہیں۔ آندھرائی حکمرانوں نے 56 سالہ دور حکومت میں تلنگانہ کو پسماندگی کا شکار بنادیا۔ وزیر داخلہ این نرسمہا ریڈی نے بی جے پی صدر امیت شاہ پر تنقید کی اور کہا کہ وہ تلنگانہ حکومت سے 17 ستمبر کو یوم آزادی تقاریب کے انعقاد کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بی جے پی کا مقصد عوام کے درمیان منافرت پیدا کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی فلور لیڈر کشن ریڈی نے تلنگانہ تحریک کے دوران اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے سے انکار کردیا تھا۔ تلنگانہ کیلئے جب عہدہ کی قربانی طلب کی گئی تو انہوں نے راہ فرار اختیار کرلی۔ نرسمہا ریڈی نے کہاکہ تلنگانہ کیلئے کس نے جدوجہد کی اور کون فرار ہوگئے ، عوام اچھی طرح جانتے ہیں۔ نرسمہا ریڈی نے کانگریس قائدین کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان قائدین نے نظام کالج پر جلسہ منعقد کرتے ہوئے مرکز سے تلنگانہ کی عدم تشکیل کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے امیت شاہ کے اس دعوے کو مضحکہ خیز قرار دیا کہ تلنگانہ میں بی جے پی کامیابی حاصل کرے گی۔ نرسمہا ریڈی نے کہا کہ امیت شاہ تلنگانہ میں غیر ضروری طور پر شو کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کے قائدین نے امیت شاہ کو غلط معلومات فراہم کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مرکز کی جانب سے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نفاذ کی ٹی آر ایس نے تائید کی تھی لیکن مرکزی حکومت نے تلنگانہ کے ساتھ ناانصافی کا رویہ برقرار رکھا ہے ۔ مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات پر ذکر کرتے ہوئے نرسمہا ریڈی نے کہا کہ امیت شاہ 12 فیصد تحفظات کی مخالفت کر رہے ہیں۔ حالانکہ ٹاملناڈو میں 69 فیصد تحفظات پر عمل آوری جاری ہے۔ اسمبلی میں بل کی منظوری کے باوجود مرکزی حکومت تحفظات کی منظوری سے انکار کر رہی ہے۔ ٹی آر ایس اپنے وعدہ پر قائم ہے اور قانونی طریقہ سے تحفظات کو یقینی بنائے گی۔ نرسمہا ریڈی نے کہا کہ ٹی آر ایس سیکولر پارٹی ہے اور بی جے پی سے مفاہمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتی طبقہ کی تعلیمی پسماندگی کے خاتمہ کیلئے اقامتی اسکولوں کا جال پھیلایا گیا۔ نرسمہا ریڈی نے کہا کہ تلنگانہ تحریک کے دوران آندھرائی قائدین نے اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ تلنگانہ ریاست میں نکسلزم کو فروغ حاصل ہوگا لیکن یہ بات غلط ثابت ہوئی ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ آئندہ انتخابات میں ٹی آر ایس کو 100 نشستوں پر کامیابی یقینی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں متحدہ طورپر عظیم اتحاد کے نام پر عوام سے رجوع ہونے کی تیاری کر رہی ہے لیکن انہیں مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ اپوزیشن کی باتوں پر عوام بھروسہ کرنے والے نہیں ہیں۔ نرسمہا ریڈی نے کانگریس اور تلگو دیشم کے انتخابی اتحاد کو موقع پرستانہ قرار دیا اور کہا کہ تلگو دیشم کا قیام کانگریس کی مخالفت میں ہوا تھا لیکن آج چندرا بابو نائیڈو این ٹی آر کی پالیسی سے منحرف ہوچکے ہیں۔