بی جے پی میں رسہ کشی

کچھ اس طرح سے نظر انداز ہوگئے
جیسے اضافی حرف تھے تیری زندگی کی کتاب میں
بی جے پی میں رسہ کشی
انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں اور حلقوں میں اتھل پتھل ہندوستانی سیاست کا لازمی جز سمجھی جاتی ہے ۔ ہر جماعت میں سیاسی قائدین کی دل بدلی ایک روایت رہی ہے اور ہر گذرتے سال کے ساتھ اس روایت کو استحکام حاصل ہوتا جا رہا ہے ۔ ہر جماعت کو کچھ جھٹکے لگتے ہیں کچھ طاقت ملتی ہے اور کچھ ان کے عزائم پورے ہوتے ہیں جو چاہتے ہیں کہ ہر بدلتے منظر نامہ میں انہیں کہیں نہ کہیں اپنی جگہ بنانے کا موقع مل جائے ۔ اب جبکہ ملک میں عام انتخابات کا عمل شروع ہوچکا ہے ایسے میں یہ صورتحال ملک کی تقریبا تمام سیاسی جماعتوں کو لاحق ہے ۔ ایسے میں مرکز میں اقتدار کی دعویدار بی جے پی سارے ملک میں ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ایک ہوا کھڑا کرتی جا رہی ہے کہ ملک میں اس کے حق میں اور اس کے وزارت عظمی امیدوار نریندر مودی کے حق میں لہر چل رہی ہے ۔ بی جے پی کے خیال میں یہ لہر ایسی ہے جو اسے اقتدار تک پہونچا سکتی ہے اور نریندر مودی کا دہلی کے تخت پر براجمان ہونے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائیگا ۔ نریندر مودی کی تشہیر میں بی جے پی تمام اصولوں اور اقدار سے منہ موڑتی جا رہی ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ بی جے پی ‘ پارٹی کو اس مقام تک پہونچانے میں اہم رول ادا کرنے والے سابق نائب وزیر اعظم ایل کے اڈوانی کو بھی نظر انداز کرنے لگی ہے ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس کا مقصد و منشا صرف اور صرف اقتدار حاصل کرنا ہے اور اس کیلئے وہ کچھ بھی کرسکتی ہے ۔ سینئر لیڈر ایل کے اڈوانی کے ساتھ پارٹی کا رویہ خود اڈوانی کیلئے ناقابل قبول ہوتا جا رہا ہے اور دوسرے بھی قائدین ہیں جو پارٹی کے طرز عمل سے نالاں ہیں۔ وہ اس ناراضگی کا کھلے عام اظہار بھی کر رہے ہیں۔ ایل کے اڈوانی اس وقت سے پارٹی سے ناراض ہیں جب نریندر مودی کو پارٹی کا وزارت عظمی امیدوار بنادیا گیا تھا ۔ اڈوانی نے پارٹی سے علیحدگی بھی اختیار کرلی تھی تاہم انہیں بعد میں آر ایس ایس کی ترغیب کے نتیجہ میں پارٹی کی صفوں میں دوبارہ واپس لایا گیا تھا ۔ اب ایک بار پھر اپنے حلقہ انتخاب کے تعلق سے بی جے پی کے فیصلے پر اڈوانی ناراض ہیں ۔ بی جے پی کے تقریبا تمام اعلی قائدین نے انہیں منانے کی کوششیں کی ہیں لیکن یہ کوششیں کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی ہیں۔
ایل کے اڈوانی کو منانے کی کوششوں میں ناکامی کی وجہ سے ہی بی جے پی کے صدر راج ناتھ سنگھ یہ اعلان کرنے پر مجبور ہوئے کہ ایل کے اڈوانی اپنے حلقہ انتخاب کا فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ اڈوانی چاہتے تھے کہ وہ گاندھی نگر لوک سبھا حلقہ کی بجائے مدھیہ پردیش میں بھوپال سے مقابلہ کریں۔ بی جے پی اس کو الگ نقطہ نظر سے دیکھ رہی ہے ۔ بی جے پی کا ماننا ہے کہ اس فیصلے سے اڈوانی نریندر مودی پر مدھیہ پردیش کے چیف منسٹر شیوراج سنگھ چوہان کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ کئی اور موقعوں پر ایل کے اڈوانی کے اقدامات سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ وہ مودی پر چوہان کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ بات بی جے پی کو پسند نہیں ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ اڈوانی کی واضح خواہش کے باوجود ان کے نام کا گاندھی نگر حلقہ سے اعلان کردیا گیا ۔ اڈوانی اس پر ناراض ہوگئے تو خود نریندر مودی ‘ سشما سواراج ‘ ارون جیٹلی اور دوسرے انہیں منانے کیلئے دوڑ پڑے اور یہ کوششیں ناکام ہوگئیں تو یہ اعلان کردیا گیا کہ اڈوانی اپنی مرضی سے اپنا حلقہ انتخاب چن سکتے ہیں۔ یہ بی جے پی میں جاری ناراضگی کا واضح اظہار ہے ۔ بی جے پی قائدین حالانکہ اس کو کسی طرح کی ناراضگی کا نام دینے سے گریز کر رہے ہیں لیکن حقیقت سارے ملک کے سامنے ہیں اور اس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ جو بی جے پی اپنے سینئر لیڈر اڈوانی کی خواہشات کا احترام نہیں کرسکتی اور اسے صرف اقتدار کی فکر ہے تو وہ ملک کے عوام کی خواہشات کو کس طرح سے پورا کر پائے گی ۔
اڈوانی کے علاوہ قائد اپوزیشن سشما سواراج بھی پارٹی کے بعض فیصلوں سے ناراض ہیں۔ انہوں نے کرناٹک میں بعض قائدین کی بی جے پی میں دوبارہ شمولیت پر اعتراض کیا تھا لیکن پارٹی نے اس اعتراض کو بھی خاطر میں نہیں لایا ۔ سشما سواراج نے کھلے عام اس پر اپنی ناراضگی ظاہر کی ہے ۔ مودی کو وارناسی سے امیدوار بنانے کے مسئلہ پر مرلی منوہر جوشی نے ناراضگی ظاہر کی تھی لیکن اسے بھی خاطر میں نہیں لایا گیا اور جوشی کا حلقہ بدل کر وہاں مودی کو اتار دیا گیا ۔ یہ ایسے حالات ہیں جو بی جے پی کو 2009 میں بھی پیش آئے تھے جب اس کی صفوں میں اتحاد نہیں تھا ۔ آر ایس ایس نے اس صورتحال کو بھانپ لیا ہے اور مشورہ دیا ہے کہ بی جے پی قائدین اپنی صفوںمیں اتحاد پیدا کریں۔ بی جے پی کی صفوں میں اتحاد کے امکانات تو نظر نہیں آ رہے ہیں کیونکہ وہ صرف اور صرف مودی پرستی میں مصروف ہے ۔ پارٹی قائدین کا یہ طرز عمل یقینی طور پر پارٹی کے انتخابی امکانات کومتاثر کرسکتا ہے اور جب بی جے پی کو اس کا احساس ہوگا اس وقت تک کافی دیر ہوجائیگی ۔