جو درس دے رہے تھے کبھی اتحاد کا
خود کیوں بہم ہیں دست و گریبان کیا پتہ؟
بی جے پی میںداخلی کشمکش
بی جے پی نے حصول اقتدار کی جدوجہد کی ذمہ داری جب سے نریندر مودی کے سپرد کردی ہے ایسا لگتا ہے کہ اب اس کے پاس کوئی اور لیڈر یا ایجنڈہ یا موضوع ایسا نہیں ہے جس کی بنیاد پر وہ عوام سے تائید حاصل کرسکے ۔ وہ صرف نریندرمودی کی شخصیت پرستی کو ہی ہندوستان کی نجات کا راستہ ظاہر کرتے ہوئے عوام کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اس پر یہ تنقیدیں ہو رہی ہیں کہ وہ سارے ملک کی باگ ڈور صرف ایک شخص کو سونپنا چاہتی ہے اورا س کے پاس کوئی دوسرا لیڈر ذمہ داری اٹھانے کیلئے بچا نہیںہے ۔ ان تنقیدوں کے دوران پارٹی میں خود بھی اختلافات پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔ کئی سینئر قائدین نریندرمودی کے طرز کارکردگی سے پریشان ہیں اور وہ کھلے عام اس پر ناراضگی کا اظہار کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ سینئر قائدین خود کو پارٹی میں غیر اہم تصور کرنے لگے ہیں۔ پارٹی قیادت نریندر مودی کے گرد ہی گھومتی نظر آ رہی ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ ہر مسئلہ پر نریندر مودی کی مرضی سے فیصلے کئے جارہے ہیں اور یہ فیصلے وہی ہیں جو مودی چاہتے ہیں۔ ایسے میں سینئر قائدین کی ناراضگی پیدا ہونا فطری امر ہے اور پارٹی کے ساتھ ایسا ہی ہوتا جا رہا ہے ۔ جب سے یہ اطلاعات گشت کرنے لگی ہیں کہ مودی وارناسی سے مقابلہ کرسکتے ہیں ایسے میں سینئر لیڈر مرلی منوہر جوشی ناراض دکھائی دے رہے ہیں ۔ حالانکہ منوہر جوشی نے یہ واضح کردیا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی کی مرکزی الیکشن کمیٹی کے اجلاس میں جوشی اور راجناتھ سنگھ کے مابین تلخ کلامی ہوئی اور مسٹر جوشی نے اس موقع پر نریندر مودی کو بھی تنقید کا نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا ۔ اس وقت خود مودی بھی اجلاس میں موجود تھے ۔
وہ چاہتے تھے کہ پارٹی یہ واضح کرے کہوارناسی سے امیدوار کو بدلنے کا فیصلہ تو نہیں کرلیا گیا ہے کیونکہ اس تعلق سے میڈیا میں مسلسل اطلاعات آ رہی ہیں اور پارٹی اس کی تردید یا توثیق کرنے سے گریز کر رہی ہے اور یہ بات کارکنوں میںالجھن کا باعث بن رہی ہے ۔ بی جے پی فی الحال اس مسئلہ پر نہ توثیق کرنے کے موقف میںدکھائی دیتی ہے اور نہ تردید کرنے کے ۔ ایسی ہی ناراضگی سینئر لیڈر و قائد اپوزیشن سشما سواراج کو بھی ہے ۔ سشما سواراج نے کھلے عام بیلاری میں ریڈی برادران کی بی جے پی میں واپسی کی مخالفت کی تھی ۔ انہوں نے اپنے ٹوئیٹر پر اپنے خیالات ظاہر کرتے ہوئے اس تعلق سے ناراضگی جتائی ۔ مرکزی الیکشن کمیٹی کے اجلاس میں بھی سشما سواراج نے ناراضگی دکھائی اورسوال کیا کہ یہ سارے فیصلے کر کون رہا ہے ؟ ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے قائدین کی پارٹی میں شمولیت سے پارٹی کی امیج متاثر ہوگی ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ اقتدار حاصل کرنے کی ہوس میں نریندر مودی ہر کس و ناکس کو پارٹی میں شامل کر رہے ہیں اور ان کا مقصد یہی ہے کہ چاہے جس کسی کی تائید حاصل کرنی پڑے وہ کرینگے تاکہ اقتدار کی کرسی تک پہونچ سکیں۔ یہ غیر اصولی اور ایسی سوچ ہے جومنفی کہی جاسکتی ہے ۔ اقتدا رحاصل کرنے کیلئے اصولوں اور اقدار سے سمجھوتہ کرنا درست نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں سیاسی جماعتوں کی اکثریت اور سیاسی قائدین اب کسی اصول اور قدر کے پابند نہیں رہ گئے ہیں اور ان کے سامنے صرف اقتدار کی کرسی اور اس کے فائدے رہ گئے ہیں۔ اس کیلئے وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں اور کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں۔
اس طرح کی کئی مثالیں عوام کے سامنے موجود ہیں۔ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام پر بی جے پی کو تنقید کا نشانہ بنانے والے کئی قائدین اور جماعتیں محض اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کی خاطر آج بی جے پی کے ساتھ کھڑی ہوتی نظر آ رہی ہیں اور ان سے اتحاد کے مسئلہ پر خود بی جے پی میں داخلی اختلافات پیدا ہونے لگے ہیں۔ 2009ء کے عام انتخابات سے قبل بھی بی جے پی کو اسی طرح کی ناراضگیوں کا سامنا تھا ۔ حالانکہ پارٹی نے اس وقت بھی کسی طرح کے اختلافات کی تردید کی تھی لیکن صورتحال تقریبا یہی تھی ۔ اب جبکہ سینئر قائدین مرلی منوہر جوشی اور سشما سواراج ناراض ہیں تو دوسری جانب بہار میں ایل جے پی سے اتحاد کی بنیاد پر بہار کے بی جے پی قائدین مودی سے ناراض ہیں ۔ مہاراشٹرا میں بی جے پی کو مشکلات کا سامنا ہے تو کرناٹک میں بھی یدیورپا کی واپسی کے مسئلہ پر اختلافات ہیں۔ ریڈی برادران کی پارٹی میں واپسی نے سشما سواراج کو ناراض کردیا ہے تو دوسری جانب دوسرے درجہ کے قائدین کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ اقتدار حاصل کرنے کی ہوس میں بی جے پی کہیں کھو گئی ہے اور اگر کچھ ہے تو صرف نریندر مودی ہے ۔ صرف ایک فرد کے اطراف پارٹی گھومتی نظر آ رہی ہے اور یہ پارٹی کے مستقبل کیلئے اور ملک کے مستقبل کیلئے بہتر نہیں ہے ۔ موجودہ حالات بی جے پی کے انتخابی امکانات پر یقینی طور پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔