بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
بی جے پی منشور
ہندوستان کے عام انتخابات میں سیاسی طوفان اور گروہ بندیوں پر بہت زیادہ توجہ دینے کے درمیان بی جے پی کے نام نہاد انتخابی منشور میں لکھے جانے والے مواد کو جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ سیکولر ہندوستان کیلئے افسوسناک منشور ہے مختلف سیاسی پارٹیوں نے نشانہ بنایا ہے۔ اس منشور کا اصل محور وزارت عظمی امیدوار نریندر مودی کو مانا جارہا ہے۔ منشور میں شامل مواد کے لحاظ سے یہ زیادہ قابل اعتبار بھی نہیں ہے ایک طرف بی جے پی ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کا نعرہ دے رہی ہے تو دوسری طرف ایک بھارت، شریشیٹھ بھارت‘‘ کہہ کر ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر بنانے کا بھی دعوی کیا جارہا ہے۔ اس طرح کے فرقہ وارانہ جذبات پر تحریر کردہ منشور سیکولر ہندوستان کے رائے دہندوں کو راغب نہیں کراسکتا ۔ ہندوستان کی بنیادیں مسلمانوں اور ہندووں پر مشتمل شہریوں کی یکساں ترقی پر ٹکی ہوئی ہیں۔ ایودھیا میں اراضی کے مسئلہ کو کسی ایک کے حق میں حل کرنے کی کوشش ہر گز کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ کوئی بھی پارٹی جب تک ملک کے مذہبی عقائد کا یکساں احترام نہیں کرے گی اور انصاف سے کام نہ لے گی تو اس کو کامیابی نہیں ملے گی ۔ سابق میں بی جے پی کi کٹر پسند قائدین نے لاکھ کوشش کی تھی کہ ایودھیا کی اراضی رام مندر کیلئے حاصل کی جائے فرقہ وارانہ فسادات بھی برپا کئے گئے تھے لیکن اب انہی قائدین کو بی جے پی میں بوجھ سمجھا جارہا ہے۔ بی جے پی کے منشور میں پڑوسی ملکوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو استوار کرنے کی بات کہی گئی ہے اس کے ساتھ سخت کارروائی کرنے اور منہ توڑ جواب دینے والے جملے بھی لکھے گئے ہیں تو اس طرح کی خارجہ پالیسی سے تعلقات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ بی جے پی از خود اپنے منشور سے اپنا چہرہ بے نقاب کررہی ہے کہ وہ سامنے سے دوست بن کر ہاتھ ملائے گی اور پیچھے سے خنجر گھونپ دے گی۔ کیا کوئی سیاسی پارٹی اسطرح کے خیالات و نظریات رکھ کر اپنے سیاسی عزائم پورے کرسکے گی۔ایک اچھی حکمرانی کا وعدہ وفا کرسکے گی ۔ بی جے پی نے منشور کو اپنے سیاسی انتقامی جذبات سے تحریر کیا ہے۔ نریندر مودی کو ایک ریاست کی عوام کو دھوکہ دینے انہیں مذہبی بنیاد پر اکسا کر خون خرابہ کرتے ہوئے اقلیتوں کو کمزور بنانے کی عادت پڑ گئی ہے تو وہ اپنی وہ اپنی اس عادت کو سارے ملک کے عوام پر آزمانے کی کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکتے ۔ بی جے پی ایک اچھی حکمرانی لانے کا وعدہ کررہی ہے۔ صاف ستھری حکومت کرنے کیلئے دیانتداری اور بے عیب صاف سھتری فطرت کے قائدین کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ بی جے پی کے اندر 38 فیصد قائدین کئی مقدمات کا سامنا کررہے ہیں ۔ فوجداری مقدمات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ عدالتو ںمیں کئی کیس زیر التواء بھی ہیں ایسے قائدین کی جماعت کوئی بھلائی کا کام کرسکے گی یہ ممکن نہیں دکھائی دیتا ۔ معاشی محاذ پر بی جے پی کا منشور نا تجربہ کاری کی دستاویز ہے ۔ ہندوستان میں اس وقت مہنگائی کا گراف 7.5 ہے تو بی جے پی حکومت میں یہ دوگنا 14.5 ہوجائیگا۔ پٹرول اس وقت 80 روپئے فی لیٹر ہے تو 160 روپئے فی لیٹر ہوجائے گا کیونکہ کارپوریٹ لابی کو مالی فائدہ پہونچانا بی جے پی کا اصل منشور و ایجنڈہ ہے ۔ گجرات کے وسائل کو فروخت کر کے کارپوریٹ گھرانوں کو فائدہ پہنچانے والے نریندر مودی نے اپنے عوام کو کچھ نہیں دیا ۔ گیاس اور دیگر قدرتی وسائل پر عوام کا حق ہوتا ہے لیکن مودی نے یہ حق صرف صنعتکاروں کے نام کردیا ۔ اب پورے ملک میں حکومت کا موقع دیا جائے تو صنعت کاری کو ہی فائدہ ہوگا ۔ دراصل بی جے پی کے اس لوک سبھا انتخابات کے منشور کو گجرات کے 2012 اسمبلی انتخابات کیلئے تیار کردہ ریاستی بی جے پی کے منشور کا چربہ قرار دیا جارہا ہے جبکہ گجرات میں بی جے پی نے جو وعدے کئے تھے اس پر اب تک کوئی عمل آوری نہیں ہورہی ہے۔ گجرات انتخابات میں کامیابی کیلئے تیار کردہ فارمولہ کو پورے ملک میں آزمانے کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ اینڈی اے کی حلیف پارٹیوں اور کے پالیسی سازوں کو بی جے پی کا منشور پسند آئے گا تو ہندوتوا کا ساتھ دینے پر ان پارٹیوں کو دوسری مرتبہ مرکز میں اقتدار حاصل ہوگا تو وہ بی جے پی کے ساتھ کتنے دن قائم رہیں گی یہ غیر واضح ہے ۔ بی جے پی نے سب کا ساتھ سب کا وکاس نعرہ بھی گجرات میں لگائے گئے گجراتی نعرہ کا ہندی ترجمہ ہے گر یہ ہندوستان بھر کیلئے قابل اطلاق ہوسکے گا یہ مشکل ہے۔ بی جے پی اپنے مودی نامہ منشور میں ہندووں اور مسلمانوں دونوں کو ہتھیلی میں چاند دکھانے کی کوشش کی ہے جبکہ اس طرح کے منشور کے متن پر کوئی بھی پارٹی عمل کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ اس طرح بی جے پی ملک کے ہندووں اور مسلمانوں دونوں کو دھوکہ دے رہی ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ بی جے پی نے مسلمانوں کو ترقی دینے اور مدرسوں کو بہتر بنانے کا وعدہ کیا ہے ۔ اس طرح یہ منشور ایک خالص سیاسی مقصد براری پر مبنی فریب نامہ ہے جس پر رائے دہندے کو خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔