بی جے پی معافی مانگنے تیار

بی جے پی صدر راجناتھ سنگھ نے اقلیتی مورچہ کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے گجرات فسادات اور پارٹی کی سابق غلطیوں کیلئے پہلی مرتبہ برسرعام معذرت خواہی کرنے کا اعلان کیا ۔ عام انتخابات سے قبل بی جے پی کو اقلیتوں کے ووٹوں کی شدید ضرورت محسوس ہورہی ہے ۔ نریندر مودی کو بہرحال وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بٹھانے کیلئے بی جے پی کے تمام اعلیٰ قائدین کی مسلمانوں کے ووٹوں پر نظر مرکوز ہورہی ہے تو یہ بادی النظر میں ایک اور دھوکہ و فریب ہے ۔راجناتھ سنگھ مسلمانوں سے معافی مانگتے ہوئے گجرات فسادات اور ملک کے دیگر کئی علاقوں میں مسلمانوں پر کئے گئے مظالم کو اپنی پرانی غلطیاں تصور کررہے ہیں۔ مسلمانوں کے ووٹوں کیلئے اب بی جے پی اپنی کٹرپسندی اور مسلم دشمنی کے چہرے پر معافی نامہ کی چادر اوڑھے سر خم کرکے کھڑی ہے تو مسلمانوں کو اس کے جھانسہ میں نہیں آنا چاہئے ۔ راجناتھ سنگھ نے معافی مانگنے میں بہت تاخیر کی ہے اب وہ اندھیرے میں بلی تلاش کررہے ہیں ۔ حیرت ہے ابھی تک وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی بھی یہی سمجھ رہے ہیں کہ ہندوستان کا سیکولر رائے دہندہ ان کی خونی حکمرانی کو فراموش کرکے ووٹ دے گا ۔ مودی کو بھی یہی گمان ہے کہ مسلمانوں کی دنیا تاریک ہے انھیں کبھی بھی بہلا پھسلاکر اُجالے کی امید اور کرن جگاکر احمق بنایا جاسکتا ہے ۔ مودی کو بھی گجرات کی کالی بلی دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔ پتہ نہیں انھوں نے زعفرانی لبادہ میں کیسی عینک لگا رکھی ہے کہ مسلمانوں پر زبردست ظلم ڈھانے کے باوجود وہ ان سے ووٹوں کی امید رکھتے ہیں ۔ راجناتھ سنگھ گجرات فسادات اور نریندر مودی کی بے گناہی سے متعلق عدالتوں کے فیصلوں کا حوالہ دے کر اقلیتوں کو گمراہ کررہے ہیں۔

گجرات فسادات سے متاثرہ افراد روز مرمر کے زندہ ہیں، ان کے قتل میں ملوث مودی کے ساتھی جیل میں ہیں۔ حال ہی میں مودی کی کابینہ کی سابق وزیر مایا کوڈنانی پر غشی طاری ہوئی اوران کا ذہنی توازن بگڑ گیا ۔ انھوں نے اپنے علاقہ میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے کا حکم دیکر اس کارروائی کا بذات خود مشاہدہ کیا تھا ۔ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہاتھوں کو ایک دن اپنے انجام کو پہونچانا ہے ۔ اس سے پہلے بی جے پی کی پشیمانی اور کف افسوس ملنے والی ڈرامائی کیفیت سے ہندوستانی مسلمانوں کو چوکنا رہنا ہوگا ۔ راجناتھ سنگھ کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی مسلمانوں کی دشمن نہیں ہے اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ بی جے پی کے خلاف منفی پروپگنڈہ نہ کریں ۔ قوم کو بچانے کیلئے مسلمان اس مرتبہ بی جے پی کوووٹ دیں، ایک بار ہمیں آزمائے ۔ اگر ہم آپ کی توقع پر پورے نہ اُتریں تو دوبارہ ہماری طرف مائل نہ ہوں ۔ راجناتھ سنگھ کی باتوں میں کتنی مطلب براری ہے کہ وہ چاہتے ہیں کے مسلمان بی جے پی کو ایک بار ووٹ دے کر دیکھیں ہندوستان میں کہیں بھی فسادات نہیں ہوں گے ۔

مسلمان کے بشمول تمام شہریوں کی زندگیوں کی سلامتی کی ضمانت دی جائے گی ۔ بی جے پی کے قائدین کو سب سے پہلے ان مسلمانوں کی آنکھوں سے بہنے والے آنسووؤں کو پوچھنے کی ضرورت ہے جو اس وقت گجرات میں بے سرو سامانی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ ان لوگوں سے ہمدردی اور معافی مانگی چاہئے جن کے گھروں کو اجاڑا گیا ۔ ان بچوں سے معافی مانگنی چاہئے جن کی نظروں کے سامنے ان کے والدین اور شتہ داروں کا قتل کیا گیا ۔ ان ماؤں اور بہنوں سے معافی مانگنی چاہئے جن کی عصمت تار تار کی گئی اس کے باجود بی جے پی ان کی برباد دنیا کو پھرسے بحال کرنے کی اہل نہیں ہوگی تو پھر ایسی معافی کی طلبی یا اظہار معذرت خواہی صرف سیاسی ڈھونگ کہلاتی ہے ۔ بی جے پی کو نظرانداز کرنے کی کئی وجوہات ہیں یہ پارٹی خالص مسلم دشمنی کے نظریہ کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے اب اسے عام انتخابات سے قبل رائے دہی میں ووٹ لینے کی فکر ہورہی ہے ۔ بی جے پی جس نے بابری مسجد کو شہید کرکے مسلمانوں کے اسلامی جذبات کو ٹھیس پہونچائی ، آج ان سے ووٹ کی امید کررہی ہے تو یہ واقعی اس کے لئے اندھیرے کی بلیاں کی مانند ہے ۔

اس کا نظریہ ہی اسے لے ڈوبے گا اگر بی جے پی کو اقتدار ملتا ہے تو کئی قائدین کے اس خیال کو تقویت ملے گی کہ بی جے پی کے دور میں ہندوستان تباہی کے آخری دہانے تک پہونچے گا ۔ مسلمانوں کا خون پی پی کر اب ’’روپ ‘‘ بدلنے کی ’’شکتی‘‘ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ویسے راجناتھ یا بی جے پی کے قائدین کی ایک بات کی داد دی جانی چاہئے کہ انھیں مسلمانوں سے دشمنی ہونے کے باوجود ان سے وفا کی امید رکھتے ہیں۔ بی جے پی کو بدلنے کیلئے سب سے پہلے مسلمانوں کے ماضی اور حال اور مستقبل کا جائزہ لینا ہوگا ۔ ووٹ کیلئے کچھ بھی کرے گا کے مصداق بی جے پی لیڈر کو پچھتاوے کے آنسو بہانے سے کچھ نہیں ملے گا ۔ انھیں سب سے پہلے اپنے اندر کے نفرت کے زہر کو ختم کرنا ہوگا ۔ انھوں نے سارے ملک کے ایک بڑے طبقہ کو اپنے زہریلے نظریہ سے متاثر کیا ہے اس لئے تعصب پسندی بڑھ گئی ہے ۔