بی جے پی قائدین کی سکیوریٹی کا ہوا

لگی تھی آگ درختوں کو اک زمانہ ہوا
دھواں سا آج بھی اٹھتا ہے آشیانوں سے
بی جے پی قائدین کی سکیوریٹی کا ہوا
انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے سیاسی جماعتیں ہر ممکن ہتھکنڈہ اختیار کرتی ہیں۔ رائے دہندوں کو رجھایا جاتا ہے ‘ انہیں ہتھیلی میں سبز باغ دکھائے جاتے ہیں ‘ بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیںاور وہ کارنامے بھی گنائے جاتے ہیں جو انہوں نے کئے ہی نہیں ۔ اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں تاہم بی جے پی اس بار اقتدار حاصل کرنے کیلئے حساس نوعیت کے مسائل کو بھی چھیڑنے سے گریز نہیں کر رہی ہے اور اس کے سامنے ملک و قوم کا مستقبل اور سلامتی نہیں بلکہ اپنا اقتدار ہے ۔ سماج میں نفرت کی دیوار کھڑی کرتے ہوئے ووٹ حاصل کرنا بی جے پی کا وطیرہ رہا ہے ۔ چاہے رام مندر کے نام پر ہو کہ گجرات فسادات کے ذریعہ ہو بی جے پی نے ہمیشہ منفی ہتھکنڈے اختیار کرتے ہوئے ووٹ حاصل کئے ہیں۔ اب بی جے پی قائدین خود کو خطرہ لاحق ہونے کا ہوا کھڑا کر رہے ہیں۔ آئے دن یہ بیانات دئے جارہے ہیں کہ بی جے پی کے قائدین اور خاص طور پر اس کے وزارت عظمی امیدوار نریندر مودی کو دہشت گردوں سے خطرہ لاحق ہے ۔ عوام کے ذہنوں میں خوف اور اندیشے پیدا کرتے ہوئے پارٹی اپنا سیاسی مستقبل بنانا اور ملک کا اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ بی جے پی کے پاس کوئی مثبت حکمت عملی یا ایجنڈہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کے پاس کوئی ایسا لیڈر موجود ہے جس کے تعلق سے عوام میں مثبت رائے پائی جاتی ہے ہو اور وہ اپنے بل پر پارٹی کو اقتدار دلا سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ گجرات فسادات کے الزامات کا سامنا کرنے والے نریندر مودی کو اس نے سینئر قائدین کو نظر انداز کرتے ہوئے وزارت عظمی امیدوار نامزد کردیا ۔ اس کیلئے ایل کے اڈوانی کی ناراضگی کو بھی خاطر میں نہیں لایا گیا ۔ مودی کے اشاروں پر دوسرے سینئر قائدین کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے اور انہیں ٹکٹ سے محروم کیا جا رہا ہے ۔

مجرمانہ پس منظر رکھنے والوں کو انتخابی میدان میں اتارا جا رہا ہے اور انہیں ٹکٹ دئے جا رہے ہیں۔ مظفر نگر فسادات کے ملزمین ارکان اسمبلی کو پارٹی نے لوک سبھا کے ٹکٹ دئے ہیں اس سے ان کے منفی رجحانات اور ذہنی پستی کا ثبوت ملتا ہے اور اقتدار کی ان کی لالچ کا اظہار ہوتا ہے ۔ کرناٹک میں بھی پارٹی نے اسکامس میں ملوث قائدین کو اپنی صفوںمیں شامل کرلیا ہے ۔
جب سارے ہتھکنڈے اختیار کرنے کے باوجود یہ اشارے مل رہے ہیں کہ شائد پارٹی کو اقتدار حاصل کرنے میں کامیابی نہ ملنے پائے کیونکہ اروند کجریوال کی قیادت والی عام آدمی پارٹی بی جے پی کی راہ میں اصل رکاوٹ بن گئی ہے تو ایسے میں اب سینئر قائدین کو دہشت گردوں سے خطرات لاحق ہونے کا ہوا کھڑا کیا جارہا ہے ۔ دہشت گردی ملک کا ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس سے سینکڑوں بے قصور افراد موت کے گھاٹ اتارے گئے ہیں۔ پارٹی جہاں مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد قرار دینے سے گریز نہیں کرتی وہیں یہ حقیقت ہے کہ ہندو دہشت گردی نے اس ملک میں تباہی مچائی ہے اور دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہندو دہشت گرد بی جے پی اور آر ایس ایس سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس طرح یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی خود بی جے پی کی پالیسی کا حصہ ہے اور وہ اس سے مسلمانوں کو خوفزدہ کرنا چاہتی ہے ۔ اب اسی دہشت گردی کے خطرہ کا اظہار کرتے ہوئے وہ ہندووں میں خوف و دہشت پیدا کرتے ہوئے ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے کیونکہ اس کے پاس عوام کی تائید حاصل کرنے کیلئے درکار کوئی مثبت پالیسی یا ایجنڈہ کا کوئی منشور نہیں ہے ۔ جہاں وہ منفی سوچ کے ساتھ شخصیت پرستی پر اتر آئی ہے وہیں اس کیلئے دہشت گردی جیسی لعنت کا استعمال بھی ممنوع نہیں سمجھا جارہا ہے ۔

بی جے پی قائدین اس میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے قائدین کو خطرہ کا اظہار کر رہے ہیں جس پر پہلے ہی بی جے پی کیلئے کام کرنے کے الزامات ہیں۔ مرکزی حکومت اور انٹلی جنس نے باضابطہ طور پر کہدیا ہے کہ کسی بھی بی جے پی لیڈر کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے اور انہیں پہلے ہی سے مکمل سکیوریٹی فراہم کی جاچکی ہے اس کے باوجود بے بنیاد اور من گھڑت باتوں کے ذریعہ عوام کے ذہنوں میں خوف و ہراس پیدا کرنا درست نہیں ہوسکتا ۔ یہ انتہائی مذموم کوشش ہے جو اقتدار حاصل کرنے کیلئے کی جا رہی ہے ۔ اس کوشش کی شدید انداز میں مذمت اور مخالفت کی جانی چاہئے ۔ ملک اور قوم کے مستقبل اور سلامتی کی فکر رکھنے والے ہندو رائے دہندوں کو بھی اپنے سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے ترقیاتی ایجنڈہ کی بنیاد پر اپنے نمائندوں کو منتخب کرنا چاہئے نہ صرف منفی سوچ اور حکمت عملی رکھنے والے ایسے قائدین کو منتخب کریں جو محض حصول اقتدار کی لالچ میں ملک کو درپیش خطرات سے بھی کھلواڑ کرنے سے باز نہیں آجاتے ۔ بی جے پی اور نریندر مودی کے حواریوں کو عوام کے مابین منافرت کی دیوار کھڑی کرنی کی اجازت ہرگز نہیں دی جانی چاہئے ۔