بی جے پی قائدین کی دستور کے نام پر حلف برداری ایک’’ مذاق ‘‘

یوم دستور ہند کے موقع پر صدر کانگریس سونیا گاندھی کی تقریر ‘ احتجاجی بی جے پی ارکان کی سرزنش‘ تاریخ پر کوئی اعتراض نہیں کرسکتا
نئی دہلی۔26نومبر ( سیاست ڈاٹ کام )  صدر سونیا گاندھی نے آج عدم رواداری کے مسئلہ پر حکومت پر تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ دستور کے نظریات اور اصول خطرہ میں ہیں اور ان پر علی الاعلان حملے جاری ہیں ۔ جن لوگوں کو دستور پر یقین ہی نہیں ہے اور نہ انہوں نے اس کے مسودہ کی تیاری میں کوئی حصہ لیا ہے ‘ اب اس کے نام پر قسم کھارہے ہیں اور اس پر اپنا حق جتا رہے ہیں ۔ وہ اس کی وابستگی پر مباحث کررہے ہیں ۔ اس سے بڑا ’’مذاق‘‘ اور کوئی نہیں ہوسکتا ۔ انہوں نے کہا کہ لوک سبھا میں دستور سے وابستگی پر مباحث کے موقع سے استفادہ کرتے ہوئے جو ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی 125ویں یوم پیدائش کے موقع پر منایا جارہا ہے ‘ سونیا گاندھی نے بی جے پی پر تنقید کی ۔ انہوں نے پُرزور انداز میں کہا کہ جو کچھ گذشتہ چند ماہ سے دیکھا جارہا ہے دستور کے اصولوں کی مکمل طور پر یہ خلاف ورزی ہے ۔ انہوں نے یاد دہانی کی کہ امبیڈکر نے دستور کو برسراقتدار طبقہ کی مرضی پر چھوڑ دینے کے خلاف انتباہ دیا تھا ۔ سونیا گاندھی نے دستور کی تدوین میں کانگریس کے حصہ کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس نے دستور کی تدوین کے علاوہ جدوجہد آزادی میں بھی اپنا حصہ ادا کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امبیڈکر نے کہا تھا کہ دستور چاہے کتنا بھی اچھا ہو اگر اس پر عمل آوری کرنے والے برے لوگ ہوں تو قطعی اثر برا ہی مرتب ہوگا ۔ ایک ایسے وقت جب کہ بی جے پی امبیڈکر‘ گاندھی کی وراثت پر اپنا حق جتانے کی کوشش کررہی ہے اور اس کیلئے امبیڈکر کی ستائش کررہی ہے اور دستور کی تدوین کیلئے کانگریس کی بھی ستائش کررہے ہیں اور اشارہ دے رہی ہے کہ کانگریس دستور پر درست طور پر اپنا حق جتاسکتی ہے ۔ سونیا گاندھی نے کہا کہ گاندھی  سے  امبیڈکر نے اُس وقت کہا تھا کہ مجھے حیرت ہوگئی جب کہ مجھے صدرنشین منتخب کیا گیا۔ مجھ سے زیادہ قابل اور بہتر لوگ کمیٹی میں موجود تھے ۔ یہ کانگریس پارٹی کا نظم و ضبط ہی تھا

جس کی وجہ سے دستور کا مسودہ تیار کرنے والی کمیٹی نے دستور میں موجود ہر دفعہ کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کی تھیں۔ صدر کانگریس نے یہ بھی کہا کہ کانگریس پارٹی منفرد صلاحیت اور قابلیت جو امبیڈکر میں بھی تھی جس کی وجہ سے امریکہ اور برطانیہ اور جرمنی نے سیاسی اور معاشی نظریات کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب انہوں نے درج فہرست اور مجبور طبقات کے حقوق ہمدردی کے ساتھ اُجاگر کرنا شروع کئے تو کانگریس نے ان کا ساتھ دیا ۔ انہوں نے کہا کہ 26 نومبر 1949ء کی صبح جب دستور کو رسمی طور پر منظور کیا گیا تھا ڈاکٹر راجندر پرساد نے امبیڈکر کی یہ کہتے ہوئے ستائش کی کہ دستورساز کمیٹی کا ان سے بہتر صدرنشین اور کوئی نہیں ہوسکتا تھا ۔ ایک ایسے وقت جب کہ پنڈت جواہر لال نہرو کا ورثہ تنقیدکا نشانہ بناہوا ہے ۔ صدر کانگریس نے پنڈت نہرو کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ وہ اُن چار کہنہ مشق قائدین میں سے ایک تھے جنہوں نے دستور ساز کمیٹی کی رہنمائی کی ۔دیگر تین قائدین صدر پٹیل ‘ راجندر پرساد اور مولانا آزاد تھے ۔ انہوں نے کہا کہ دستور ساز کمیٹی کی  8ذیلی کمیٹیاں تھیں ۔ ان کے صدرنشین نہرو‘ پٹیل یا پرساد تھے اور ان میں پانچ کمیٹیوں کے ممتاز رکن مولاناآزاد تھے ۔

انہوں نے یاد دہانی کی کہ دستور کی تاریخ بہت قدیم اور جنگ آزادی سے مربوط ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے تانے بانے کانگریس سے بھی ملتے ہیں ۔ انہوں نے یاد دلایا کہ مارچ 1931ء کے کانگریس کے کراچی اجلاس میں بنیادی حقوق اور معاشی حقوق کی قرارداد منظور کی گئی تھی ۔جب بعض بی جے پی ارکان نے احتجاج شروع کرنا چاہا تو سونیا گاندھی نے ان پر واضح کردیا کہ وہ تاریخ دہرا رہی ہیں ‘ جس پر کسی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا ۔ انہوں نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دستور نے غریبوں کو مساوی حق رائے دہی دیا ‘ ملک کی سیکولر اقدار کو سربلند کیا ‘ جمہوریت کو زیادہ نمائندہ اور حکومت کو زیادہ جواب دہ بنایا ۔ دستور کی عظمت کی ستائش کرتے ہوئے صدر کانگریس نے کہا کہ ایسا بہت کم ہوتا ہے ۔ نہ تو دنیا میں اور نہ کہنہ مشق قائدین کی کہکشاں میں کہ کام متحدہ طور پر کرتے ہوئے اس مرتبہ کی کوئی دستاویز تیار کی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ دستور نے اپنی لچکداری کا ثبوت دیا ہے ۔ تغیر پذیر حالات کے پیش نظر اس میں کئی ترمیمات کی جاچکی ہیں ۔