بی جے پی سے انتخابی مفاہمت نہیں کی جائے گی: دیوے گوڑا

سکیولر رائے دہندوں کی ناراضگی سے بچنے جنتادل سکیولر کی نئی چال، کانگریس سے مفاہمت پر خاموشی
حیدرآباد۔3 مئی (سیاست نیوز) بی جے پی کی (بی) ٹیم کے حیثیت سے کرناٹک میں عوام کے درمیان نئی شناخت بنتے ہی جنتادل سکیولر نے اچانک اپنا موقف تبدیل کرلیا۔ 12 مئی کو منعقد ہونے والے اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں اور سکیولر ووٹ سے محرومی کے خوف نے سابق وزیراعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا کو وضاحت پر مجبور کردیا کہ انتخابات کے بعد معلق اسمبلی کی صورت میں بی جے پی سے کوئی مفاہمت نہیں کی جائے گی۔ وزیراعظم نریندر مودی نے انتخابی مہم کے پہلے دن دیوے گوڑا کی زبردست تعریف کی تھی اور انہیں ملک کا قدرآور اور قابل احترام قائد قرار دیا تھا۔ مودی کی تعریف کے ساتھ ہی کانگریس کو یہ کہنے میں سہولت ہوگئی کہ بی جے پی کے ساتھ دیوے گوڑا کی خفیہ مفاہمت ہے اور دونوں چاہتے ہیں کہ سابقہ تجربہ کو دہراتے ہوئے پھر ایک مرتبہ مخلوط حکومت تشکیل دیں۔ وزیراعظم کی جانب سے دیوے گوڑا کی تعریف کے فوری بعد کرناٹک کے سیاسی حلقوں میں اور خاص طور پر سوشل میڈیا میں تیزی سے یہ پیامات گشت کرنے لگے کہ جنتادل سکیولر کی تائید دراصل بی جے پی کی تائید کے مترادف ہے۔ مسلمان اور دیگر سکیولر رائے دہندے جو پہلے ہی جنتادل سکیولر کے رویہ سے ناراض تھے، انہوں نے کانگریس کے حق میں تائید کا فیصلہ کرلیا۔ مسلم جماعتوں اور تنظیموں کے علاوہ کئی غیر سرکاری سکیولر تنظیموں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ بی جے پی جنتادل ایس کے خفیہ اتحاد کا شکار نہ ہو۔ ایسے وقت جبکہ انتخابی مہم عروج پر ہے، مودی نے دیوے گوڑا کی تعریف کرتے ہوئے سکیولر ووٹ تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ اس صورتحال سے پریشان سابق وزیراعظم ایچ ڈی دیے گوڑا نے پہلی مرتبہ بی جے پی سے انتخابی مفاہمت کے امکانات کو مسترد کردیا۔ دیوے گوڑا نے کہا کہ انتخابات کے بعد کی صورتحال میں اگر مخلوط حکومت کے امکانات ہوں تب بھی جنتادل سکیولر بی جے پی کے ساتھ نہیں جائیگی۔ انہوں نے کانگریس سے مفاہمت کے امکانات پر بھی کوئی لب کشائی نہیں کی۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ انتخابی شکست سے بچنے کے لیے دیوے گوڑا نے وضاحت کردی ہے۔ اگر وہ خاموش ہوتے تو رائے دہندوں کا شک یقین میں تبدیل ہوسکتا تھا۔ انتخابی اعلامیہ کی اجرائی سے لے کر پرچہ جات نامزدگی کے اختتام تک بھی اسی مرحلہ پر دیوے گوڑا اور ان کے فرزند کمارا سوامی نے بی جے پی سے مفاہمت کے امکانات کو مسترد نہیں کیا تھا۔ دیوے گوڑا نے نریندر مودی سے قربت کا کچھ اس طرح اشارہ دیا کہ 2014ء انتخابات میں بی جے پی کو واضح اکثریت کی صورت میں انہوں نے لوک سبھا کی رکنیت سے استعفیٰ کا فیصلہ کیا تھا۔ انتخابات کے بعد جب انہوں نے استعفیٰ کا فیصلہ کیا تب نریندر مودی نے انہیں یہ کہتے ہوئے فیصلے سے روک دیا کہ ملک کو تجربہ کار اور سینئر قائدین کی ضرورت ہے۔ دیوے گوڑا نے کہا کہ کسانوں کے مسائل پر پانچ مرتبہ انہوں نے وزیراعظم سے ملاقات کی تھی۔ مودی نے مسائل کی سماعت ضرور کی لیکن ایک بھی مسئلہ کو حل نہیں کیا۔ بی جے پی ا ور جنتادل سکیولر کے درمیان جاری یہ آنکھ مچولی انتخابات میں کیا رنگ دکھائے گی اس پر سیاسی مبصرین کی نظریں ہیں۔