!بی جے پی حکومت میں خواتین غیر محفوظ

اونچا درخت پودوں کو اٹھنے نہیں دیتا
کمزوروں کو کوئی بھی پنپنے نہیں دیتا
بی جے پی حکومت میں خواتین غیر محفوظ !
بہار کے مظفر پور میں بچیوں کے تحفظ مرکز میں مبینہ طور پر عصمت ریزی کے واقعہ ملک کا واحد واقعہ نہیں ہے ۔ گذشتہ چار سال سے بی جے پی حکومت میں خواتین پر ہونے والے مظالم کی طویل فہرست سامنے آنے کے بعد اپوزیشن پارٹیوں نے یہ کہا ہے کہ مودی حکومت نے ’ بیٹی بچاؤ ، بیٹی پڑھاؤ ‘ کا نعرہ دیا تھا ۔ اب اس زعفرانی پارٹی کے ارکان اسمبلی سے ملک کی بیٹیوں کو بچانے کا وقت آگیا ہے ۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کا واحد نظریہ یہی ہے کہ ملک کی باگ ڈور صرف مرد ہی سنبھالیں ۔ اگر جہاں کہیں خاتون کے ہاتھ میں باگ ڈور ہے تو اس کو واپس بھیج دیا جاتا ہے ۔ ان چار سالوں میں خواتین کے خلاف کیا کچھ ہوا ہے اس پر بحث کرتے ہوئے اپوزیشن پارٹیوں نے خاص کر کانگریس نے یہ دعویٰ کیا کہ گذشتہ 70 سال میں جو کچھ نہیں ہوا وہ ان چار برس میں ہوا ہے ۔ صدر کانگریس راہول گاندھی نے خواتین کے مسائل پر مودی حکومت کی خاموشی کا سوال اٹھایا ہے ملک میں ہونے والے مختلف عصمت ریزی کے واقعات پر وزیراعظم کی خاموشی کو معنی خیز قرار دیا جارہا ہے ۔ خواتین تحفظات بل کو منظور کرنے کا فیصلہ بھی کانگریس کے لیے ان دنوں خاص موضوع بن گیا ۔ لیکن بی جے پی نے اپنی حکمرانی والی ریاستوں یا حلیف پارٹیوں کی ریاستوں میں ہونے والے خواتین مخالف واقعات کے حوالے سے اپوزیشن کے شور و غل کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بی جے پی کے پاس ہی سب سے زیادہ ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی خواتین کی تعداد زیادہ ہے ۔ سشما سوراج ، نرملا سیتارامن کے سینئیر وزراء ہونے کا حوالہ دیا جاکر بی جے پی ان الزامات کو مسترد کررہی ہے جس میں کہا گیا کہ اس کی حکومت میں خواتین محفوظ نہیں ہیں ۔ بی جے پی کو یہ تو تسلیم کرنا ہوگا کہ اس کی حکومت میں ملک بھر میں عصمت ریزی کے سنگین واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔ جموں و کشمیر کٹھوا عصمت ریزی کیس کا گھناؤنا واقعہ بھی بی جے پی لیڈروں کی درندگی کا نتیجہ ہے اب مظفر پور میں ایک آسرا گھر میں رہنے والی معصوم لڑکیوں کی عصمت ریزی کے واقعہ پر ملک بھر میں غم و غصہ پیدا ہوا ہے ۔ بہار کے اس خوفناک آسرا گھر کی نگرانی کرنے والوں نے انسانیت کے ماتھے پر سیاہ داع لگایا ہے ۔ این جی او کی جانب سے چلائے جانے والے اس آسرا گھر میں سیاستدانوں نے اپنی جنسی ہوس مٹانے کے لیے درندگی کا مظاہرہ کیا ۔ بہار کی نتیش کمار حکومت پر شدید تنقیدیں کرنے والی اپوزیشن نے گذشتہ روز دہلی میں احتجاجی مظاہرہ بھی کیا مگر ان مظاہروں کے باوجود حکومت اور اس کے کارندوں نے خواتین کے تحفظ کے مسئلہ پر سازشی رویہ اختیار کرلیا ہے ۔ مظفر پور عصمت ریزی واقعہ کی سی بی آئی تحقیقات کروانے سے اصل ملزمین جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے ۔ یہ کہنا مشکل ہے کیوں کہ جن افراد کو اس کیس میں ماخوذ کیا جائے گا وہ اپنے سیاسی آقاؤں کے نور نظر ہیں ۔ انہیں بچانے کی ہر ممکنہ کوشش ہوتی ہے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بی جے پی ارکان کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔ ان کے لیے ہر جرم جائز ہے ۔ چیف منسٹر بہار نتیش کمار نے خود کو ان الزامات سے دوری رکھنے کی کوشش کی ہے ۔ اس طرح کے عصمت ریزی کے واقعات کے خاطیوں کو کھلی چھوٹ دینے کا ہی نتیجہ ہے کہ ان کے اور ان کی حرکتوں کی تقلید کرنے والوں کے حوصلے بڑھتے جارہے ہیں ۔ اگرچیکہ مظفر پور واقعہ کی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں ۔ معصوم لڑکیوں کی عصمت ریزی کے کیس سے نمٹنے میں جب کوئی بھی تحقیقاتی ادارہ سیاسی دباؤ کا شکار ہوتا ہے تو اس کی تیار کردہ رپورٹ ناقابل اعتبار کہلائے گی ۔ بہار ہی نہیں ملک کی دیگر ریاستوں میں خاص کر شمال ہند کی بڑی ریاستوں میں خواتین پر مظالم اور زیادتیوں کے واقعات میں اضافہ ہونا تشویشناک بات ہے ۔ اترپردیش کے ضلع دیوریا میں بچیوں کے تحفظ مرکز میں اس طرح کے واقعہ کا انکشاف ہوا ہے ۔ اس مرکز سے تعلق رکھنے والی لڑکی نے پولیس میں زیادتیوں کی شکایت کی تو پولیس نے 24 لڑکیوں اور خواتین کو اس مرکز سے بازیاب کرالیا ۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس آسرا ہوم میں جملہ 42 لڑکیاں اور خواتین تھیں جن میں سے 18 لڑکیاں غائب بتائی گئی ہیں ۔ آخر یہ لڑکیاں کہاں گئیں ۔ اس کا پتہ چلانے کی کوشش کرنے کا دعویٰ کرنے والی پولیس ہنوز ان کا پتہ چلانے سے ناکام ہے ۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کم از کم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اس انسانی معاشرہ میں غیر انسانی واقعات میں اضافہ کا پتہ چلا کر اس کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کرنا حکومت اور قانون کے رکھوالوں کا اولین فریضہ ہے اگر وہ اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام ہوتے ہیں تو پھر انہیں اخلاقی طور پر خود کو قصور وار متصور کر کے اس ذمہ داری سے سبکدوش ہوجانا چاہئے ۔۔