تیرا کوچہ نہ سہی ‘ دامن صحراہی صحیح
میری مٹی کمبخت کہیں ٹھکانے تو لگے
بی جے پی اور فرقہ پرستی
مرکز میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میںبھی اقتدار حاصل کرنے کیلئے ہر طرح کی کوشش کر رہی ہے ۔ اس کی کوششوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور فرقہ وارانہ منافرت کو اولین مقام حاصل ہوتا جا رہا ہے ۔ بی جے پی کے مرکز میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد اس طرح کے واقعات میں کافی اضافہ ہوگیا ہے اور ہندو تنظیموں کی حوصلہ افزائی ہونے لگی ہے اور وہ متنازعہ بیانات کے ذریعہ اپنے عزائم کو واضح کرنے میں مصروف ہوگئی ہیں۔ کئی تنظیمیں اپنے عزائم کو واضح کرتے ہوئے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو فروغ دینے کی ذمہ دار بن رہی ہیں ۔ ایسے میں اب خود بی جے پی کے سربراہ نے ایک ایسا بیان دیا ہے جس سے پارٹی اور اس کی قیادت کی ذہنیت آشکار ہوگئی ہے ۔ بی جے پی صدر امیت شاہ نے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران کہا کہ اتر پردیش میں اگر فرقہ وارانہ کشیدگی رہتی ہے تو اس سے بی جے پی کو یقینی طور پر اقتدار حاصل ہوگا ۔ حالانکہ اب اس بیان کو دوسرے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ الزام عائد کیا جارہا ہے کہ اتر پردیش کی پولیس یکطرفہ کارروائی کرنے لگی ہے جس سے بی جے پی کو اقتدار حاصل ہوگا تاہم امیت شاہ نے فرقہ وارانہ کشیدگی کا لفظ استعمال کیا تھا اور اس سے ان کے اور ان کی پارٹی کے عزائم واضح ہوچکے ہیں۔ یہ الزامات مسلسل عائد کئے جارہے تھے کہ بی جے پی اقتدار حاصل کرنے کیلئے فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دیتی ہے اور اب امیت شاہ کے بیان بلکہ اعتراف کے بعد یہ الزامات حقیقت بن گئے ہیں۔ بی جے پی کی تاریخ رہی ہے کہ اس نے متنازعہ مسائل کو ہوا دے کر ایک سے زائد مرتبہ ملک بھر میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ کیا تھا اور اسی کشیدگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے اقتدار حاصل کیا تھا ۔ اب بھی وہ اسی طرح کی کوشش کر رہی ہے ۔ ملک کے مختلف مقامات پر فرقہ وارانہ کشیدگی کے واقعات میں بی جے پی کے اقتدار پر آنے کے بعد اضافہ ہوگیا ہے ۔ بی جے پی حالانکہ اس الزام کو قبول نہیں کرتی اور اس کی دوسری تاویلیں پیش کرنے میں جٹی ہوئی ہے لیکن اس حقیقت سے سارا ملک واقف ہے اور کوئی اس سے انکار کرنے کے موقف میں نہیں ہے ۔
ملک میں ہر گوشہ سے فرقہ وارانہ کشیدگی کی مخالفت کی جاتی ہے اور ملک بھر کے عوام بھی نہیں چاہتے کہ کوئی ایسا واقعہ پیش آئے جس کے نتیجہ میں منافرت کو فروغ حاصل ہو ۔ اس کے باوجود بی جے پی اسی نہج پر کام کرتی آئی ہے اور اب امیت شاہ نے یہ اعتراف کرلیا ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی در اصل بی جے پی کیلئے سود مند ثابت ہوگی اور اسے اتر پردیش جیسی ریاست میں اقتدار حاصل ہوگا ۔ یہ بات واضح ہے کہ سیاسی جماعتیں اور خاص طور پر بی جے پی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے ہر کوشش کرتی ہیں اور اب جبکہ بی جے پی کو یہ اعتراف ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی اس کیلئے معاون ثابت ہوسکتی ہے اور اسے اقتدار مل سکتا ہے تو بی جے پی یقینی طور پر اتر پردیش میں بلکہ ملک کے دوسرے شہروں میں بھی فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے سے گریز نہیں کریگی ۔ اسے مرکز کی طرح اتر پردیش میں بھی بہر صورت اقتدار حاصل کرنے کی خواہش ہے اور وہ اس کیلئے فرقہ وارانہ کشیدگی کا سہارا لینے سے ہرگز گریز نہیں کریگی ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ہندوستانی سماج کے ماتھے پر کلنک ہوگا اور اس طرح سے حاصل کی جانے والی انتخابی کامیابی کی کوئی دستوری اور جمہوری اہمیت و افادیت بھی نہیں رہے گی ۔ جہاں بی جے پی کشیدگی اور منافرت کو بھڑکاتے ہوئے کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کریگی وہیں دوسری سیاسی جماعتوں کو اسے روکنے کیلئے اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے اور یہ ذمہ داری خود اتر پردیش کے عوام پر بھی عائد ہوتی ہے ۔
اتر پردیش کے عوام نے گذشتہ دو مرتبہ اسمبلی انتخابات میں اپنے سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے منقسم رائے دینے سے گریز کیا تھا ۔ جہاں ایک مرتبہ بہوجن سماج پارٹی کو اپنے طور پر اقتدار حاصل ہوا تو وہیں دوسری مرتبہ سماجودای پارٹی کے حق میں عوام نے رائے دی ۔ یہ یو پی کے عوام کا سیاسی شعور تھا کہ انہوں نے دوسری جماعتوں کو ووٹ دیتے ہوئے معلق اسمبلی سے گریز کیا تھا ۔ اب انہیں عوام کو ہندوستانی سماج اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تئیں بھی اپنی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ چاہے فوری ہونے والے ضمنی انتخابات ہوں کہ دو سال بعد ہونے والے اسمبلی انتخابات ہوں اتر پردیش کے رائے دہندوں کی یہ ذمہ داری ہوگئی ہے کہ وہ فرقہ وارانہ کشیدگی اور منافرت پھیلاتے ہوئے اقتدار حاصل کرنے بی جے پی کی کوششوں کو مسترد کردیں اور اسے یہ احساس ضرور دلائیں کہ یو پی کے عوام پسماندہ ضرور ہیں لیکن وہ سیاسی طور پر اتنا شعور ضرور رکھتے ہیں کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی پھیلانے والوں کے حق میں ووٹ نہیں دینگے ۔