انسان دَم بخود ہے تماشوں کے درمیاں
جمہوریت کا ناچ ہے لاشوں کے درمیاں
بی جے پی اور ریاستیں
مرکز کی موجودہ حکمراں پارٹی عام انتخابات میں طرف داری کے ووٹ حاصل کرکے اقتدار پر فائز ہے، اب اسے ملک کی پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کا مقابلہ کرنا ہے۔ آسام میں کانگریس کی دیرینہ حکومت کو بیدخل کرنے کے لئے بی جے پی اور ان کی ساری طاقتور ٹیم اپنی قوت صرف کررہی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے انتخابی مہم میں اپنے بعض عام انتخابات کے وعدوں کو پس پشت ڈال کر نئے مسائل کی جانب عوام کی توجہ مبذول کرانی شروع کی ہے۔ ہندوستان میں سیاست کو بہت بڑا ہتھیار بنایا جاتا رہا ہے۔ مخالفین کو زیر کرنے کے لئے سیاسی حربے اختیار کئے جاتے ہیں۔ اُتراکھنڈ کا سیاسی حربہ بھی بی جے پی کے لئے ورثہ میں ملا ہے۔ کانگریس نے سابق میں جس طرح کے حربے اختیار کئے تھے، وہی حربے بی جے پی نے اپنائے ہیں ، مگر یہ حرکت ’’سراسر جمہوریت کے قتل‘‘ کے مترادف ہے۔ اُتراکھنڈ کی حکومت کو بیدخل کرکے وہاں صدر راج نافذ کرنا ایک سیاسی اوچھی حرکت ہے۔ ہریش راوت کی قیادت کے خلاف بغاوت کرنے والے کانگریس کے 9 ارکان اسمبلی نے اپوزیشن سے ہاتھ ملاکر بی جے پی کو حکومت کی بیدخلی کیلئے مضبوط بنایا۔ مرکزی کابینہ نے گورنر کی رپورٹس کا جائزہ لے کر اُتراکھنڈ میں صدر راج نافذ کرنے کی سفارش کی۔ گورنر نے چیف منسٹر ہریش راوت کو ایوان کے اندر اپنی اکثریت ثابت کرنے کے لئے 28 مارچ کی تاریخ مقرر کی تھی لیکن اس طاقت کی آزمائش سے ایک دن قبل ہی مرکز نے اُتراکھنڈ میں اپنا سیاسی کھیل کھیلا ہے۔ یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ چھوٹی سی ریاست میں بڑی بڑی چال چل کر مرکز کی حکمراں بی جے پی نے سیاسی سودے بازی کی انتہائی نچلے درجہ کی حرکت کی ہے۔ بی جے پی صدر امیت شاہ نے حکمراں پارٹی کے خلاف کوئی سازش کی ہے تو اس سازش میں ’’رام دیو‘‘ کا نام بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہاں رام دیو کی اُتراکھنڈ کی سیاست سے زیادہ یہاں کے قدرتی وسائل اور سرکاری مراعات پر نظر ہے۔ رام دیو نے اُتراکھنڈ میں اپنا کاروبار وسعت دینے کے لئے کانگریس کے باغی ارکان کو رجھانے میں کامیابی حاصل کرلی۔ بابا رام دیو پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے اُتراکھنڈ میں ’’بی جے پی کے ایجنٹ‘‘ کا رول ادا کیا ہے۔ اس ملک میں ہر غلط کام کی ستائش کی جاتی ہے جبکہ ہر غلط کام پر تنقید ہونی چاہئے۔ یہاں تک کہ وہ غلط کام ختم ہوجائے، مگر بی جے پی نے جس طرح کا غلط کام کیا ہے، اس کی خراب نظیر قائم ہوگی۔ اس وقت بی جے پی کو اچھی اور بُری دونوں طرح کی پالیسیوں پر عمل کرنا ہی تھا تو اس کے لئے آنے والے برسوں میں صرف مسائل ہی رہیں گے۔ پانچ ریاستوں آسام، تاملناڈو، کیرالا، مغربی بنگال اور پڈوچیری میں یہ انتخابات 4 اپریل سے شروع ہورہے ہیں۔ اس موقع پر قومی سطح پر بی جے پی نے ’’قوم پرستی‘‘ اور ’’قوم دشمنی‘‘ کا جو ’’شوشہ‘‘ چھوڑا ہے، یہ اسمبلی انتخابی ایجنڈہ کا حصہ ہے جبکہ حکومت نے قوم پرستی کی آڑ میں ملک کی ہاتھ سے نکلتی ہوئی معیشت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ ویسے حالات نے اپوزیشن یا غیربی جے پی پارٹیوں کو موقف فراہم کررہا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کا ہر محاذ پر محاصرہ کریں، اس لئے بی جے پی کو بہار اور دہلی میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اسمبلی انتخابات میں کامیابی بی جے پی کیلئے ضروری ہے تاکہ نریندر مودی کو طاقت حاصل ہوسکے اور راجیہ سبھا میں حکومت کی اکثریت میں اضآفہ بھی ہوجائے جہاں حکمراں پارٹی کو اکثریت کی کمی ہے۔ ان پانچ ریاستوں کے نتائج کا 19 مئی کو اعلان کیا جائے گا۔ اس سے پہلے اُتراکھنڈ کا واقعہ تمام ملک کے عوام کیلئے غور طلب ہے کیونکہ بی جے پی بحیثیت مرکز کی حکمراں پارٹی، علاقائی طاقت کو کمزور کرنے کے درپے نظر آرہی ہے۔ جمہوری طرز کی حکومتوں کو بیدخل کرنے کے بہانے ہیں۔ دستور کے آرٹیکل 356 کا استعمال کرنے کے ماضی کے کئی واقعات اور عدالتوں کے فیصلے محفوظ ہیں۔ اس کے باوجود حکمراں پارٹی اپنی طاقت کا استعمال بے جا طریقہ سے کرتی ہے تو اس پر آواز ضروری اٹھائی جانی چاہئے۔ جب سے ملک میں لوٹ مار کا کلچر عام ہوا ہے، سیاسی پارٹیوں نے راتوں رات امیر بننے اور محنت مشقت کئے بغیر ڈھیروں پیسے کمانے کی ہوس بڑھی ہے۔ اُتراکھنڈ کے قدرتی وسائل پر نظر رکھنے والے لوگوں نے بی جے پی کا ساتھ دیا ہے۔ رام دیو اور بی جے پی گٹھ جوڑ سے جو سیاسی غلط کام انجام دیئے جارہے ہیں، ان کا نوٹ لینا ہر جمہوری ادارہ اور فرد کی ذمہ داری ہے۔