بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
بی جے پی امیدواروں پر ناراضگیاں
انتخابات کے موسم میں سیاسی جماعتوں میں روٹھنے منانے کا سلسلہ یوں تو عام بات ہے ۔ ہر جماعت کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ چاہے وہ کانگریس ہو یا بی جے پی ہو یا دوسری جماعتیں ہوں ۔ اب تو نئی قائم کردہ جماعت عام آدمی پارٹی کو بھی ایسی صورتحال کا سامنا ہے جہاں ٹکٹ نہ ملنے پر پارٹی کارکن اور قائدین ناراضگی ظاہر کرنے لگے ہیں۔ تاہم بی جے پی کیلئے ایسا لگتا ہے کہ صورتحال بہتر سے ابتری کی سمت گامزن ہے ۔ بی جے پی بھلے ہی ملک میں بی جے پی کے حق میں لہر ہونے کا دعوی کر رہی ہو لیکن حقیقت اس کے برعکس نظر آتی ہے اور اس کے امیدواروں کے انتخاب نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا ہے ۔ کئی حلقوں میں خود امیدوار ناراض ہیں تو کئی اور حلقے ایسے بھی ہیں جہاں امیدواروں کے انتخاب پر مقامی پارٹی کارکن کھلے عام ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں اور وہ پارٹی قائدین کے خلاف نعرے لگانے کے علاوہ ان کے پتلے بھی نذر آتش کرنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ بی جے پی کو امید ہے کہ اسے ہندی بولنے والی ریاستوں جیسے اتر پردیش ‘ مدھیہ پردیش اور بہار میں زیادہ کامیابیاں مل سکتی ہیں اور یہ کامیابیاں اسے آئندہ حکومت بنانے میں معاون ثابت ہونگی ۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ ان ہی ریاستوں میں بی جے پی کو ناراضگیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور امیدواروں کے انتخاب پر اندرونی چپقلش بھی عام ہوگئی ہے ۔ سب سے پہلے نریندر مودی کو وارناسی سے مقابلہ کروانے کے فیصلے پر سینئر لیڈر مرلی منوہر جوشی ناراض تھے ۔
پھر سب سے سینئر لیڈر ایل کے اڈوانی گاندھی نگر سے مقابلہ پر تیار نہیں تھے ۔ وہ بھوپال سے مقابلہ کرنا چاہتے تھے ۔ بعد میں سینئر قائدین اور آر ایس ایس کی مداخلت پر طوعا و کرہا اڈوانی گاندھی نگر سے مقابلہ کیلئے تیار ہوگئے ۔ اب ایک اور سینئر لیڈر جسونت سنگھ کو پارٹی نے ٹکٹ دینے سے انکار کردیا ہے ۔ یہ قیاس کیا جارہا ہے جسونت سنگھ آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں قسمت آزمائی کرنے والے ہیں۔ بہار میں پٹنہ صاحب نشست پر شتروگھن سنہا کو دوبارہ ٹکٹ دئے جانے پر ناراضگیاں ہیں۔ شتروگھن سنہا جب اپنا پرچہ نامزدگی داخل کرنے گئے تو انہیں خود بی جے پی کارکنوں کی جانب سے سیاہ جھنڈیوں کے مظاہرہ کا سامنا کرنا پڑا ۔
بی جے پی قائدین اور خاص طور پر وزارت عظمی امیدوار نریندر مودی ملک بھر میں یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ اس بار بی جے پی کے حق میں لہر چل رہی ہے اور رائے دہندے تبدیلی چاہتے ہیں۔ یہ ہوا کھڑا کیا جارہا ہے کہ مودی کو کامیابی ملے گی ۔ پارٹی اور اس کے قائدین اندرونی چپقلش کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو ناراضگیاں ظاہر کی جا رہی ہیں اور جو احتجاج اور مظاہرے ہو رہے ہیں ان کو اہمیت دینے سے گریز کیا جارہا ہے ۔ ناراضگیاں اس حد تک ہوگئی ہیں کہ صدر بی جے پی راجناتھ سنگھ کے لکھنو سے مقابلہ کرنے کے فیصلے پر تو پارٹی کارکنوں نے ان کے پتلے بھی نذر آتش کئے ۔ اقتدار ملنے کی امید میں یہ قائدین اپنے لئے محفوظ حلقے تلاش کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اس سے تاثر ملتا ہے جب سینئر ترین قائدین کو خود اپنے لئے محفوظ حلقوں کی تلاش ہے اور وزارت عظمی امیدوار نریندر مودی بھی ایک حلقے سے مقابلہ پر مطمئن نہیں ہیں اور دو جگہ سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو خود بی جے پی کیلئے حالات قطعی سازگار نہیں ہیں۔ بی جے پی بھلے ہی اس کا اعتراف نہ کرے لیکن داخلی حلقوں میں اس کی صفوں میں جو بے چینی عین انتخابات سے قبل پیدا ہوگئی ہے وہ اپنا اثر ضروردکھائیگی ۔ بی جے پی کو یہی صورتحال 2009 میں بھی درپیش تھی جس کی وجہ سے اسے شکست کا سامنا کرنا پڑیگا اور اگر آئندہ انتخابات کے بعد بھی بی جے پی اقتدار حاصل کرنے سے محروم رہ جاتی ہے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہوگی ۔
پارٹی کیڈر اور عوام میں یہ تاثر بھی عام ہوتا جا رہا ہے کہ نریندر مودی کو جب سے بی جے پی میں سب کچھ سمجھا گیا ہے اس وقت سے ساری باگ ڈور صرف چند افراد کے ہاتھ میں آگئی ہے جو سینئر قائدین کو اہمیت دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ایل کے اڈوانی ہوں کہ مرلی منوہر جوشی ہوں ‘ جسونت سنگھ ہوں یا دوسرے قائدین ہوں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بی جے پی کو دو نشستوں سے اٹھا کر سو سے آگے پہونچانے میں اہم رول ادا کیا تھا لیکن اب جب نریندر مودی کے ہاتھ میں اختیار آگیا ہے تو وہ ان ہی سینئر قائدین کو حاشیہ پر لا کھڑا کرنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال پارٹی کے انتخابی امکانات پر یقینی طور پر اثر انداز ہوگی لیکن بی جے پی اور خاص طور پر نریندر مودی اور ان کے حواری اس کو سمجھنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ ٹولہ سب کچھ سمجھتا ہے لیکن وہ سر عام اس کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے کیونکہ اسے اندیشہ ہے کہ عوام میں حقیقت کھل جائیگی تو ان کے انتخابی امکانات متاثر ہونگے اور اقتدار حاصل کرنے کا خواب ادھورا رہ جائیگا ۔