بی جے پی ، برانڈ مودی جیسی عوامی تائید کے حصول سے محروم

مرکز کی کئی اسکیمات عوام میں مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام، بی جے پی سروے کا اعتراف

نئی دہلی 3 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) 2019 ء کے لوک سبھا انتخابات کے لئے اب صرف چند ماہ باقی رہ گئے ہیں اور بی جے پی کے ایک داخلی سروے کے مطابق برانڈ مودی اگرچہ طاقتور انداز میں اُبھرے ہیں اور مزید طاقت حاصل کررہے ہیں لیکن مرکز کی طرف سے متعارف کردہ مختلف اسکیمات اور ان کی پارٹی (بی جے پی) کو برانڈ مودی جیسی طاقت و مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ قومی دارالحکومت میں چار ماہ کے دوران کئے گئے اس سروے میں 34000 افراد نے بی جے پی کے روایتی ووٹروں کی بنیاد سے بالاتر ہوکر صرف مودی کے انداز کی حمایت کی۔ تاہم بی جے پی کو اس کے صدر امیت شاہ کی طرف سے مقررہ 50 فیصد عوامی تائید کے برخلاف اوسطاً 37 فیصد افراد کی تائید حاصل ہوسکی۔ اس سروے سے انکشاف ہوا کہ 63 فیصد افراد نے 2019 ء میں وزارت عظمیٰ کے امیدوار کی حیثیت سے مودی کی حمایت کی۔ 2014 ء میں اُنھیں (مودی کو) وزارت عظمیٰ کے امیدوار کی حیثیت سے 59 فیصد افراد کی تائید حاصل ہوئی تھی۔ جولائی اور اکٹوبر کے دوران کئے گئے سروے کے مطابق تقریباً نصف جواب دہندگان نے خیال ظاہر کیاکہ ووٹنگ کی ترجیح میں وزارت عظمیٰ کا امیدوار بھی ایک کلیدی و فیصلہ کن عنصر ہوا کرتا ہے۔ صرف 25 فیصد افراد نے کہاکہ وہ پارٹی خطوط پر ووٹ دیں گے۔ سروے کرنے والے بی جے پی سے ملحقہ ادارہ نے کہاکہ ’ریڈیو پروگرام ’من کی بات‘ اس میں عوام سے بات چیت کے علاوہ مرکزی اسکیمات کے استفادہ کنندگان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی یا مرکزی حکومت کے بجائے وزیراعظم مودی کو ہی زیادہ شخصی فائدہ پہونچا ہے اور ان کی شخصی مقبولیت کا حلقہ وسیع ہوا ہے۔ چنانچہ وزیراعظم کی شخصی مقبولیت ان کی حکومت اور پارٹی کی مقبولیت سے کہیں زیادہ بلند سطح پر دیکھی گئی ہے۔ مودی کی مختلف گوشوں سے جس میں وہ اکثر سماجی مسائل اُٹھاتے ہیں، مسلسل بات چیت و رابطوں نے تائید اور حمایت کی نئی بنیادوں کا اضافہ کیا ہے جو درحقیقت بنیادی طور پر بی جے پی کی تائید کرنے والے گڑھ میں تبدیل ہوئے ہیں‘۔ تاہم نوٹ بندی اور جی ایس ٹی ان (وزیراعظم مودی) کی پارٹی کے لئے کام نہ آسکے کیوں کہ 48 فیصد افراد نے ان دونوں اقدامات کو ’بُرا اور خراب‘ قرار دیا صرف 29 فیصد نے اس کو بہتر سمجھا۔