حیدرآباد ۔ 13 ۔ جنوری : اسپین میں مسلمانوں نے ایک زمانے میں طویل عرصہ تک حکومت کی اسپین میں مسلمانوں کے عروج کا آغاز وہاں حضرت طارق ابن زیاد کی آمد سے ہوتا ہے تاریخی کتب کا جائزہ لینے پر پتہ چلتا ہے کہ اسپین میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ 709 سے شروع ہوچکا تھا اور اس ملک کے مختلف حصوں پر وہ تقریبا 904 برس تک حکومت کرتے رہے ۔ اسپین اور حیدرآباد کا بھی گہرا تعلق رہا ہے ۔ آصفجاہی دور حکمرانی میں جس طرح ترک حکمرانوں سے تعلقات استوار کئے گئے تھے اسی طرح حیدرآباد میں اسپینی مسلمانوں کے لیے اخوت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ 1906 میں بیگم پیٹ کے لب سڑک اس وقت کے وزیر اعظم حیدرآباد دکن سروقار الدولہ بہادر اقبال الدولہ نے ہسپانوی انداز میں تقریبا ایک ایکڑ اراضی پر ایک خوبصورت فن تعمیر کی شاہکار مسجد تعمیر کروائی ۔ بتایا جاتا ہے کہ مسجد قرطبہ کے مشاہدہ کے بعد انہیں حیدرآباد فرخندہ بنیاد میں بھی ایسی ہی مسجد تعمیر کرنے کا خیال آیا اور انہوں نے اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہناکر ہی دم لیا ۔ بعض تاریخی کتب میں آیا کہ اس مسجد کی تعمیر 1890 میں شروع کی گئی اور 1900 میں مکمل ہوئی جب کہ چند مورخین کہتے ہیں کہ 1906 میں اس مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی ۔ اپنے منفرد طرز تعمیر ، ڈیزائن اور خوبصورتی کے لحاظ سے نہ صرف شہر حیدرآباد بلکہ سارے ملک میں اسے ایک منفرد حیثیت حاصل ہے ۔ اس مسجد کو اسپینی مسجد ، جامع مسجد ایوان ، مسجد اقبال الدولہ بھی کہا جاتا ہے ۔ لیکن یہ زیادہ تر ہسپانوی یا اسپینی مسجد کے نام سے مشہور ہوئی ۔ اس مسجد کی تعمیر کے بعد سے گنبدوں اور میناروں کو مختلف رنگوں سے رنگا گیا ۔ واضح رہے کہ اس مسجد میں کم از کم 3000 مصلی نماز ادا کرسکتے ہیں ۔ سال 2010 میں چند ناعاقب اندیشوں نے مسجد سے متصل برما کا استعمال کرتے ہوئے آثار قدیمہ کے قوانین کی دھجیاں اڑائیں تھیں ۔ لیکن مصلیان مسجد کے اعتراض پر تعمیر روکدی گئی ۔ لیکن تب تک مسجد کی میناروں میں دراڑیں پیدا ہوگئیں تھیں ۔
تاہم نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے اس وقت کے رکن ششی دھر ریڈی ایم ایل اے نے جواب نیشنل ڈیزاسسٹر مینجمنٹ کے نائب صدر نشین ہیں ان کی مداخلت اور مسجد سے متصل کھدائی کرنے والے ڈیولپرس و کنٹراکٹرس کے خلاف پولیس میں شکایت کے اندراج کے بعد وہ تعمیر روکدی گئی ۔ اس وقت تاریخی عمارتوں کے قریب کھدائی نہ کرنے سے متعلق قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں ۔ آج مسجد کے مصلیوں کی اطلاع پر وہاں کا دورہ کر کے دیکھنے پر پتہ چلا کہ مسجد سے صرف 10 فٹ کے فاصلہ پر نہ صرف کھدائی جاری ہے بلکہ بھاری مشینوں کا استعمال کرتے ہوئے 50 فٹ گہرائی تک کھدائی کردی گئی ۔ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تاریخی آثار سے متصل کھدائی پر برہم مصلیوں اور سماجی جہد کاروں کے خیال میں یہ سب حمڈا ، مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد ، اور محکمہ آثار قدیمہ کی مجرمانہ غفلت اور ان کے عہدیداروں کے تساہل کا نتیجہ ہے ۔ ان افراد کا سوال ہے کہ آخر حمڈا بلدیہ اور محکمہ آثار قدیمہ نے کس بنیاد پر مسجد سے متصل بھاری مشنری کے استعمال کی اجازت دی ہے ؟ بعض مصلیوں نے یہ بھی سوال کیا کہ آیا حمڈا بلدیہ اور محکمہ آثار قدیمہ میں ایسے نا اہل لوگوں کی بھرتیاں ہورہی ہیں جنہیں تاریخی آثار ، ان کی اہمیت و افادیت کے علاوہ ان کی حفاظت کے لیے بنائے گئے خواتین سے تک واقفیت نہیں ؟ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ نیشنل ڈیزاسسٹر مینجمنٹ اتھاریٹی کے نائب صدر نشین و رکن اسمبل مسٹر ایم ششی دھر ریڈی نے 20 اگست 2010 میں جب کہ مسجد سے متصل کھدائی کی گئی تھی جس سے مسجد کی میناروں و دیواروں کو نقصان پہنچا تھا ۔
اس وقت دورہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس تاریخی آثار کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرنا ضروری ہے ۔ انہوں نے اس وقت حمڈا اور مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کے عہدیداروں کو ہدایت دی تھی کہ اس طرح کے واقعات نہ ہونے پائیں ۔ انہوں نے مسجد کی میناروں اور دیواروں میں پڑی دراڑوں کی فوری مرمت کرنے کی بھی ہدایت دی تھی ۔ یہی نہیں بلکہ ششی دھر ریڈی نے عہدیداروں کو حکم دیا تھا کہ میناروں کی مرمت کا کام بہت ہی احتیاط سے کیا جائے تاکہ اس خوبصورت مسجد کو کسی قسم کا نقصان نہ ہونے پائے ۔ اس وقت انتہائی دانشورانہ انداز میں ششی دھر ریڈی نے کہا تھا کہ ہماری شناخت ہماری اپنی تہذیب و تمدن میں پوشیدہ ہے اور اگر تہذیب کو ہی ختم کردیا جائے تو ہمارے پاس کچھ باقی نہیں رہے گا ۔ 2010 میں اس وقت تعمیر روکدی گئی لیکن محکمہ آثار قدیمہ کے اُس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسجد سے صرف 10 منٹ کے فاصلہ پر ایک ایکڑ رقبہ تک 50 فٹ گہرئی کھدائی کردی گئی ہے ۔ جس میں تاریخی آثار سے 100 فٹ فاصلہ تک کسی بھی قسم کی کھدوائی کو مستوجب سزا و جرمانہ قرار دیا گیا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ تعمیر کے مقام پر کسی کو داخل ہونے سے روکنے کے لیے خانگی سیکوریٹی گارڈس کی خدمات حاصل کی گئیں ہیں ۔ واضح رہے کہ جامع مسجد ایوان بیگم پیٹ کو 2010 میں انٹاک ہیرٹیج ایوارڈ دیا گیا تھا ۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ حمڈا ، بلدیہ اور آثار قدیمہ کس طرح اپنا فرض نبھاتے ہیں ؟ ۔۔