بیک وقت انتخابات ‘ الیکشن کمیشن کا انکار

ہم نے سنا تھا کہ دوست وفا کرتے ہیں
جب ہم نے کیا بھروسہ تو روایات ہی بدل گئیں
بیک وقت انتخابات ‘ الیکشن کمیشن کا انکار
الیکشن کمیشن نے لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کے بیک وقت انعقاد کا امکان عملا مسترد کردیا ہے اور اس کا کہنا تھا کہ جب تک اس معاملہ میں قانونی راہ ہموار نہیںکی جاتی اس وقت تک ایسا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ گذشتہ چند مہینوں سے اس تجویز پر کافی مباحث ہو رہے تھے ۔ کہا جا رہا تھا کہ ملک میں بار بار انتخابات کے ماحول سے بچنے اور جو بھاری اخراجات ہوتے ہیں ان کو کم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ لوک سبھا اور اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت کروائے جائیں۔ ملک کی کئی سیاسی جماعتوں نے اس کی شدت سے مخالفت کی تھی اورا نہوں نے اس تجویز کو جمہوری عمل کے مغائر قرار دیا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے جمہوری اقدار اور اصولوں کی نفی ہوتی ہے ۔ کچھ جماعتوں نے جن میں بی جے پی سر فہرست ہے لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے بیک وقت انتحابات کی حمایت کی تھی ۔ بی جے پی کی جو حلیف جماعتیں ہیں انہوں نے بھی بی جے پی کے اثر میں اس تجویز سے اتفاق کیا تھا ۔ مرکزی لا کمیشن کو کئی جماعتوں کی جانب سے اس سلسلہ میں تجاویز روانہ کی گئی تھیں۔ کئی جماعتوں نے مکتوب روانہ کرتے ہوئے کمیشن کو اپنے موقف اور اپنی رائے سے واقف کروایا تھا ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے ان تجاویز کا خاموشی سے جائزہ لیا جا رہا تھا ۔ کمیشن نے اس پر کھل کر سر عام کبھی کوئی رائے ظاہر نہیں کی تھی ۔ تاہم اب کمیشن کی جانب سے یہ واضح کردیا گیا ہے کہ ملک میں جو موجودہ قوانین ہیں ان کے مطابق لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کا بیک وقت انعقاد ممکن نہیں ہوسکتا ۔اس کیلئے قانون میں گنجائش پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب سیاسی جماعتوں میں اس تعلق سے اتفاق رائے پیدا کردیا جائے ۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا اس وقت تک انتخابات کے بیک وقت انعقاد کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ کمیشن کا جو موقف ہے وہ درست اور مناسب ہے اورکمیشن نے اس معاملہ میں قانون کے مطابق اپنی رائے پیش کی ہے ۔ کمیشن کے موقف سے ایک طرح سے اس مسئلہ پر مباحث عملا ختم ہو کر رہ گئے ہیں۔
ابتداء میں جو تجویز پیش کی گئی تھی اس کے تعلق سے کہا جا رہا تھا کہ بی جے پی لوک سبھا انتخابات کیلئے وزیر اعظم نریندر مودی کی لہر سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ایسے میں وہ چاہتی ہے کہ مرکز کے ساتھ ساتھ اسے ریاستوں میں بھی اکثریت حاصل ہوجائے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ اپنے تمام منصوبوں کو پایہ تکمیل کو پہونچانے میں کامیاب ہوسکتی ہے ۔ بی جے پی کو حالانکہ گذشتہ لوک سبھا انتخابات میں ملی بہترین کامیابی کے بعد ملک کی بیشتر ریاستوں میں بھی حکومتیں تشکیل دینے کا موقع ملا ہے لیکن کچھ ریاستوں میں اب بھی ایسی صورتحال ہے جہاں بی جے پی اپنے وجود کا احساس دلانے کوشاں ہے ۔ خاص طور پر جنوبی ہند کی ریاستوں میں بی جے پی کا وجود محض معمولی حد تک ہے ۔ اس کے علاوہ مغربی بنگال میں بی جے پی تمام تر کوششوں کے باوجود اپنے قدم نہیںجما سکی ہے ۔ جنوب میںکیرالا ‘ ٹاملناڈو ‘ آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں بی جے پی کمزور ہے اور محض کرناٹک ایک ایسی ریاست ہے جہاں بی جے پی حالانکہ مستحکم ہے لیکن وہ دوسری بار یہاں اپنی حکومت تشکیل نہیں دے پائی ہے ۔ جس طرح بی جے پی شمال مشرق میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی اسی طرح وہ چاہتی تھی کہ جنوبی ہند میں بھی اس کو قدم جمانے کا موقع مل جائے ۔ اسی خیال سے بیک وقت انتخابات کی تجویز پیش کی گئی تھی اور بعد میں اس سے اتفاق بھی کیا گیا تھا لیکن اب یہ تجویز عملا ختم ہوگئی ہے ۔
اس تجویز کی مخالفت کرنے والی جماعتوں نے جو رائے دہی تھی وہ بھی قابل غور تھی ۔ ان جماعتوں کا کہنا تھا کہ ملک کے عوام کو ہر ریاست میں وہاں کے مقامی حالات کے مطابق اپنی رائے دینے کا موقع ملنا چاہئے ۔ جو مسائل ریاستی ہوتے ہیں وہ مختلف ہوتے ہیں اور جو مرکزی ہوتے ہیں ان کی نوعیت الگ ہوتی ہے ۔ ایسے میں اگر دونوں انتخابات کو بیک وقت منعقد کیا جاتا ہے تو اس سے رائے دہندوں کے ذہن میں یکسوئی پیدا ہونی مشکل تھی ۔ اور اگر رائے دہندوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرتے ہوئے چناؤ کروائے جاتے تو اس سے جمہوری اصولوں کی پامالی یقینی بات تھی ۔ اس طرح اس تجویز کی مخالفت کرنے والوں کی رائے کو بھی یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ کمیشن نے بھی جو موقف اختیار کیا ہے وہ درست ہے کہ جب تک قانونی راہ ہموار نہ ہوگی اس وقت تک کمیشن بیک وقت انتخابات کے امکان پر غور نہیںکرسکتا ۔