بیچلرس کوارٹرس ، معظم جاہی مارکٹ خطرہ میںعمارت بوسیدہ ، حکام کی لاپرواہی

حیدرآباد ۔ 22 ۔ اپریل : ( سیاست نیوز) : بیچلرس کوارٹرس شہر حیدرآباد کی ایک قدیم و تاریخی عمارت ہے ۔ چار منزلہ اس ملٹی اسٹوری عمارت کا سنگ بنیاد 1937 میں رکھا گیا ۔ حضور نظام آصف سابع نواب میر عثمان علی خاں کے ہاتھوں 1942 میں اس شاندار عمارت کا افتتاح عمل میں آیا ۔ جو ہر دیکھنے والے آنکھ کو خیرہ کرتی تھی ۔ آصف سابع کی والدہ بڑی بیگم صاحبہ کی یاد میں مادر دکن اسکالر شپ فنڈ سے 1.48 لاکھ روپئے ادا کر کے اسے حاصل کیا گیا تھا ۔ آج یہ تاریخی ، خوبصورت عمارت مخدوش حالت میں پہنچ گئی ہے ۔ جو حکام کی لاپرواہی ، بے اعتنائی کا شکون اپنی زبان حال سے کررہی ہے ۔ بیچلرس کوارٹرس کا مقصد حیدرآباد میں زیر تعلیم بیرونی ریاستوں اور حیدرآباد کے اطراف و اکناف کے طلباء کے رہائش کی سہولت فراہم کرنا تھا ۔ وہیں یہ عمارت مجرد افراد کے قیام و طعام کی سہولت فراہم کیا کرتی تھی اس کے علاوہ تجارت پیشہ افراد کے قیام کے لیے بھی رہائشی کمرہ کرایہ پر دئیے جاتے رہے ہیں ۔ 43 کمروں پر مشتمل 130 فٹ بلند یہ عمارت کشادہ ، ہوا دار ہے ۔ ابتداء میں یہ محکمہ انڈومنٹ کے قصبہ میں رہی پھر ہاوزنگ بورڈ اور اب ریاستی وقت کے تحت ہے ۔ جیسا کہ بتایا گیا کہ اس دور میں حیدرآباد ریاست کے علاوہ مرہٹواڑہ ، کرناٹک کے اضلاع سے غریب طلباء کو ترجیحاً رہائشی سہولتیں فراہم کی جاتی تھیں ۔ یہ طلباء حیدرآباد کے نظام کالج ، سٹی کالج اور عثمانیہ یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم تھے ۔ رفتہ رفتہ اس عمارت میں کرایہ داروں میں اضافہ ہوتا گیا ۔ خان اینڈ سنس ، حیدرآباد ایجوکیشنل کانفرنس ، دفتر تلنگانہ
نان گزیٹیڈ آفیسرس ، فائن آرٹس اکیڈیمی ، خبر رساں ادارے ، ہفتہ وار ’ گواہ ‘ ادبی رسالہ ’ صبا ‘ ماہنامہ شگوفہ کے دفاتر کے علاوہ وکیلوں کے دفاتر بھی اس عمارت میں موجود ہے ۔ ماضی کی یہ پرشکوہ عمارت سیاحوں کو تفریح طبع کا سامان مہیا کرتی ۔ آج یہ خود اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ بیچلرس بلڈنگ حیدرآباد شہر کی پہلی آر سی سی عمارت ہے جو اپنے میں ایک تہذیبی ، ثقافتی ، پس منظر رکھتی ہے ۔ اردو زبان کے فروغ اور اس کے تحفظ میں کئی تحریکات نے اپنا آغاز کیا اور اردو کی کئی تحریکات نے بھی اس عمارت سے اپنی ہی کارکردگی کا آغاز کیا تاکہ اردو کو اس کا مستحقہ مقام دلوایا جاسکے اور اپنے مطالبات کی تائید میں بھوک ہڑتال اور مظاہرے کیے ۔ ایسا لگتا ہے کہ شہر کی یہ قدیم عمارت کے تحفظ اور اس کی نگہداشت میں حکومت ناکام ہوگئی ہے اور اہم پہلو یہ ہے کہ اس مخدوش عمارت کو ریاستی وقف بورڈ کے حوالے کرنے کے باوجود ابھی تک تعمیرات ، تزئین نو کے بارے میں حکومت کے سنجیدہ ہونے کا دور دور تک نام و نشان نظر نہیں آرہا ہے اور اس عمارت کو ریاستی وقف بورڈ کے حوالے کرنے کے باوجود ابھی تک تعمیرات اور تزئین نو کے بارے میں کوئی موثر اقدام نہیں ہوا ۔ اس سلسلہ میں کئی نمائندگیاں بھی حکومت کو کی گئی کہ حکومت حیدرآباد کی اس تاریخی یادگار عمارت کے تحفظ کے سلسلہ میں کوئی عملی منصوبہ بنائے ۔ محکمہ آثار قدیمہ اور محکمہ بلدیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قدیم بیچلرس کوارٹرس کا مکمل تحفظ کرے اور اس کی خاطر خواہ نگہداشت کے لیے فراخدلانہ بجٹ منظور کرے ۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ مئی 2010 میں صدر ٹی آر ایس کے چندر شیکھر راؤ نے جناب محمد محمود علی ، سوامی گوڑ اور دیگر پارٹی کے قائدین اور کارکنوں کے ہمراہ اس عمارت کا تفصیلی دورہ کیا تھا ۔ انہوں نے اس وقت اس بات کا تیقن دیا تھا کہ اس عمارت کو نقصان سے محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کریں گے ۔ لیکن ٹی آر ایس حکومت اقتدار میں آنے کے باوجود آج یہ تاریخی عمارت خستہ حالت میں جوں کا توں کھڑی ہے ۔ شہر کی عوام اور دیگر ریاستوں کی عوام اور حکومت وقت کے لیے مجسمہ فریاد بنی ہوئی ہے ۔ اس عمارت کی بوسیدگی کے ساتھ صرف کمروں کے سوا دیگر سہولیات محروم ہے دیواروں سے مسلسل سمنٹ اور گچی کے جھڑتے رہنے کے باوجود دیواروں میں سوراخ پڑ گئے ہیں ۔ برسوں سے آہک پاشی نہیں ہوئی ہے ۔ یہاں تک کہ جگہ جگہ اس برقی کے تار لٹکے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔ بلڈنگ میں برقی کی فٹنگ ناقص ہوچکی ہے جس سے اندیشہ اس بات کا لگتا ہے یہ عمارت شارٹ سرکٹ کا شکار ہوسکے ۔ اس عمارت میں کئی کمرے مقفل ہیں ۔ باوثوق ذرائع نے بتایا کہ کرایہ کمروں کو مقفل کر کے دوسرے مقامات منتقل ہوچکے مگر ان کرایہ داروں کا قبضہ جوں کا توں برقرار ہے اور بعض نے ان کمروں کو کرایہ پر دے رکھا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ اس عمارت کے پچھلے حصہ میں دیوار کی جگہ جگہ سے بوسیدہ ہونے کے باعث اپنے خرچ سے تعمیر و مرمت کا کام کروالیا ہے تاکہ ان کے مال و کاروبار کو کوئی نقصان نہ پہنچ پائے ۔ لیکن نصف صدی کی مدت سے اس کی آہک پاشی اور صفائی تک نہ ہوپائی ہے ۔ اس لیے شہر کے قدیم عمارت کی خوبصورتی کو بحال کرنے کے لیے حکومت وقت موثر اقدامات کریں ۔ اس سلسلہ میں عوامی نمائندوں کو بھی اس باوقار اور پر عظمت عمارت کی بقاء و تحفظ کے دست تعاون دراز کرنا ہوگا ۔۔