بیوی کے روبرو دوسری خاتون کی عصمت ریزی ناممکن

نئی دہلی ۔ 29 ۔ اپریل (سیاست ڈاٹ کام) کوئی بھی خاتون اپنے شوہر کو ہرگز یہ اجازت نہیں دے سکتی کہ اس کی موجودگی میں کسی دوسری خاتون سے جسمانی تعلقات قائم کرے ۔ دہلی کی ایک عدالت نے آج ایک شخص کو اپنی بیوی کے روبرو اپنی بیوہ بھاوج کی عصمت ریزی کے الزام سے بری کرتے ہوئے یہ تاثرات پیش کئے اور کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ عصمت ریزی کے وقت ملزم کی بیوی نے خاتون کا منہ دبا رکھا تھا ۔ دنیا کی کوئی خاتون اپنے شوہر کو یہ اجازت نہیں دے سکتی کہ اس کی موجودگی میں کسی دوسری خاتون سے جسمانی تعلقات استوار کرے۔ ایڈیشنل سیشن جج سنجیو جین نے ایک شخص کو عصمت ریزی اور مجرمانہ دھمکیوں کے الزامات بری کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ عدالت نے شکایت کنندہ کے اس ادعا کو قبول کرنے سے انکار کردیا کہ عصمت ریزی کے وقت اس کی ساس نے ہاتھ باندھ دیتے تھے

اور یہ ناقابل فہم ہے کہ ایک 78 سالہ خاتون دوسری نوجوان خاتون کے ہاتھ اور پاؤں باندھ دیتے تھے تاکہ اس کا بیٹا (ملزم) اس خاتون کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کرے۔ عدالت نے یہ نشاندہی کی کہ خاتون کا سسرالی رشتہ داری کے ساتھ جائیداد کا جھگڑا تھا لہذا ملزمین کو جھوٹے الزامات میں پھانسنے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت نے اس کیس میں بیانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ تضادات سے بھرپور ہیں جس کے باعث یہ مشتبہ بن گیا ہے ۔ جج نے کہا کہ میں قانونی رو سے یہ اتفاق کرتا ہوں کہ متاثرہ خاتون کی واحد گواہی اور ان کے استدلال کی بنیاد پر ملزم کو سزا دی جائے لیکن واقعاتی شہادتوں کے باعث بعض شک و شبہات ابھر کر آتے ہیں جس کی وجہ سے متاثرہ خاتون کے استدلال کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ استغاثہ کے بموجب ایک خاتون نے ڈسمبر 2012 ء کو یہ شایت درج کروائی تھی کہ اس کے شوہر کی موت کے بعد سسرالی رشتہ دار اسے گھر سے بیدخل کرنا چاہتے ہیں جو کہ اس کے نام پر تھا اور ملکیت نامہ ساس کے نام پر منتقل کرنے کیلئے اسے ہراساں کیا جانے لگا ۔ا یک موقع پر دیور نے اس کی عصمت ریزی بھی کی تھی۔ اس خاتون نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس جرم کے ارتکاب کیلئے اس کی ساس اور دیورانی نے اعانت کی تھی ۔ تاہم عدالت نے ان کے الزامات پر یقین کرنے سے انکار کردیا اور یہ نشاندہی کی کہ کئی مرتبہ خاتون نے تضاد بیانی سے کام لیا جبکہ اس کے بیانات میڈیکل رپورٹ سے ہم آہنگ بھی نہیں تھے۔