’’خلع‘‘ (خاء کے ضمہ کے ساتھ ) عربی زبان کا لفظ ہے ، جو ’’خَلْع‘‘ (خاء کے فتحہ کے ساتھ ) سے ماخوذ ہے ، جس کے معنی اُتارنے اور نکالنے کے ہیں۔ قرآن مجید میں لفظ ’’خلع‘‘ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ ارشاد ہے : اے موسیٰ آپ اپنے نعلین اُتار دیجئے ۔ بلاشبہ آپ وادی مقدس طویٰ میں ہیں۔ (سورۂ طٰہٰ : ۱۲؍۲۰)
نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو لفظ ’’خلع‘‘ استعمال کرتے ہوئے پیشن گوئی فرمائی : یقیناً اﷲ تعالیٰ تم کو ایک قمیص پہنائیگا ۔ اگر لوگ تم سے اس کو نکالنا چاہیں تو تم اس کو نہیں نکالنا ۔ ( المعجم الاوسط ۔ طبرانی ۔۳۷۶۳)
قرآن مجید میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لئے لباس سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ ارشاد الٰہی ہے : وہ (بیویاں) تمہاری پوشاک ہیں اور تم اُن کی پوشاک ہو۔ (سورۃ البقرۃ ۱۸۶؍۲)چونکہ پوشاک اُتارنے کے لئے لفظ ’’خلع‘‘ استعمال ہوتا ہے اسی بناء پر عقد نکاح کے پوشاک کو اُتارنے کے لئے لفظ ’’خلع‘‘ کی اصطلاح وضع ہوئی ۔
قرآن مجید میں عائلی و خاندانی نظام کے مختلف پہلوؤں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے کیونکہ نکاح ہی انتظام خانہ داری اور تمدنی معاشرت کے استحکام کا بنیادی رکن ہے اسی لئے اسلام نے حسن معاشرت کی تلقین کی اور طلاق دینے کی سخت مذمت کی ۔ حتی المقدور باہمی مفاہمت اور خاندانی مصالحت کی ترغیب دی ۔ تاہم بسا اوقات علحدگی ہی میاں بیوی اور دونوں گھرانوں کے لئے بہتر ہوتی ہے اس لئے طلاق کی گنجائش رکھی گئی لیکن خاندانی نظام کے استقرار کے پیش نظر طلاق کا اختیار مرد کو دیا گیا، ہر دو کو طلاق کا اختیار حاصل ہونے کی صورت میں طلاق کی کثرت کا اندیشہ رہتا ہے ۔ چنانچہ مغربی ممالک میں آج خاندانی نظام کا شیرازہ بکھرچکا ہے ، تہذیب یافتہ ممالک عائلی نظامِ زندگی سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ قرآن مجید میں طلاق کے دو طریقے بتائے گئے ہیں (۱) طلاق جس کا اختیار شوہر کو دیا گیا ہے ، اس میں بیوی کی رضامندی اور اجازت مشروط نہیں ، تاہم شوہر کو حقِ طلاق بوقت ضرورت استعمال کرنے اور مسنون طریقہ کے مطابق دینے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ (۲) دوسرے علحدگی کے طریقے ہیں شوہر اور بیوی دونوں کی رضامندی کو ملحوظ رکھا گیا ہے یعنی بیوی شوہر کے ساتھ رہنے آمادہ نہ ہو اور ان دونوں کو نکاح کی برقراری کی صورت میں اﷲ تعالیٰ کے حدود کی پاسداری نہ کرنے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں بیوی کچھ معاوضہ کا پیشکش کرے اور شوہر اس معاوضہ کے بدل اس کو طلاق دیدے تو اس کو خلع کا نام دیا گیا ۔
مرد کو طلاق کا اختیار حاصل ہونے پر متعدد آیات قرآنیہ شاہد ہیں۔ ارشاد ہے : جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی مدت کو پہنچ جائیں تو تم ان کو بھلائی سے روک لو یا ان کو بھلائی سے چھوڑ دو ۔ ( سورۃ البقرۃ ۲؍۲۳۱)
ترجمہ : اے ایمان والو ! جب تم مومن عورت سے نکاح کرو پھر ان کو چھونے سے قبل طلاق دیدو تو ان پر کوئی عدت نہیں ہے ۔
( سورۃ الاحزاب ؍۴۹)
سورۃ البقرۃ آیت ۲۲۷ میں ہے : اگر وہ مرد طلاق کا عزم کرلیں تو بے شک اﷲ سننے والا ، جاننے والا ہے ۔ اسی طرح قرآن مجید کی دیگر آیات میں طلاق دینے کی نسبت صرف اور صرف مرد کی طرف کی گئی ہے ۔ کہیں پر بھی طلاق دینے کی نسبت عورت کی طرف نہیں کی گئی ۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے سورۃ البقرۃ کی آیات : ۲۲۸، ۲۲۹، ۲۳۰، ۲۳۱، ۲۳۲، ۲۳۶، ۲۳۷، ۲۴۱، سورۃ الطلاق ؍۱، سورۃ التحریم :۵۔
سورۃ البقرہ کی آیت (۲۲۹) میں رجعی طلاق کے ذکر کے بعد میاں بیوی دونوں کی رضامندی سے طئے پائی جانے والی علحدگی کا ذکر موجود ہے جس کا مکمل ترجمہ حسب ذیل ہے : طلاق (رجعی ) دو بار تک ہے ، پس یا تو بھلائی کے ساتھ رکھ لینا یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے اور تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ تم عورتوں کو دیئے گئے ( مال ) میں سے کچھ لے لو اِلا یہ کہ ان دونوں کو اندیشہ ہو کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے حدود کو قائم نہ رکھ سکیں۔ پس اگر تم ڈرو اس بات سے کہ وہ دونوں اﷲ کے حکم کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں کہ عورت فدیہ ( معاوضہ ) دیکر چھوٹ جائے یہ اﷲ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود ہیں ’’تم ان سے تجاوز نہ کرو جو اﷲ تعالیٰ کے حدد سے تجاوز کرجائیں گے پس وہ لوگ ظالم ہیں‘‘۔
متذکرہ بالا آیت قرآنیہ خلع کی مشروعیت کی دلیل ہے۔ بعض حضرات کو گمان ہوگیا کہ جس طرح مرد کو طلاق کا حق حاصل ہے اسی طرح عورت کو خلع کا اختیار ہے اور عورت کو خلع لینے کے لئے شوہر کی رضامندی درکار نہیں ہے ۔ اگر وہ لوگ متذکرہ آیت کے ایک جز ’’ان دونوں ( میاں بیوی) پر کوئی گناہ نہیں اس چیز میں جس میں وہ (بیوی) فدیہ دیکر چھوٹ جائے‘‘ ۔ پر غور کرلیں تو سارے اشکالات اور غلط فہمیاں ختم ہوجائیں گی ۔ اس آیت میں ’’عَلَیْھِمَا‘‘ کی ضمیر میاں بیوی دونوں کی طرف لوٹ رہی ہے یعنی طلاق کی ایک قسم ہی ہے جس میں میاں بیوی دونوں کی رضامندی مطلوب ہوتی ہے اور وہ خلع ہے جس میں بیوی شوہر کو معاوضہ کا پیشکش کرتی ہے اور شوہر اس کو قبول کرکے طلاق دیتا ہے ۔ یہی مفہوم احادیث شریفہ اور اقوالِ صحابہ سے ثابت ہے ، واضح باد کہ دین اسلام میں سب سے پہلے خلع حضرت ثابت بن قیس بن شماس کی اہلیہ نے حاصل کیا ۔ چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس بن شماس کی اہلیہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کیں : یارسول اﷲ ! میں ثابت بن قیس کے اخلاق اور دینداری سے ناراض نہیں ہوں بلکہ اسلام کی حالت میں کفر ( ناشکری) سے ڈرتی ہوں ۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کیا تم ان پر ان کا باغ ( جو انھوں نے بطور مہر دیا تھا ) لوٹا دوگی ۔ انھوں نے کہا : ہاں تو آپ ﷺ نے حضرت ثابت بن قیس سے فرمایاکہ تم باغ قبول کرلو اور انھیں ایک طلاق دیدو (بخاری )۔ یہ روایت متعدد طرق سے متعدد مستند کتب حدیث میں وارد ہوئی ہے اور یہی حدیث خلع کے باب میں حجت کادرجہ رکھتی ہے ۔ عہدرسالت میں شوہر کے بغیر عورت کا تنہا خلع لینے اور قید نکاح سے آزاد ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ۔ دارقطنی میں حضرت عطاء سے مرسلاً روایت موجود ہے ۔ حضور پاک ﷺ نے فرمایا : ’’شوہر خلع طلب کرنے والی بیوی کو جو کچھ دیا ہے اس سے زیادہ نہ لے ‘‘۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ تعالیٰ سے ایک خاتون نے اپنے شوہر کی شکایت تو حضرت عمر نے اس خاتون کو ایسے مقام میں رات گزرانے کا حکم دیا جہاں بہت سا کچرہ پڑا ہوا تھا ۔ صبح میں دریافت فرمایا : رات کیسی گزری تو اس نے جواب دیا میں جب سے شوہر کے پاس ہوں سکون سے نہیں رہی ، کل رات ہی میں سکون سے رہ سکی ۔ جب یہ بات حضرت عمرؓ نے سنی تو اس کے شوہر کو کان کے بالی کے عوض ہی صحیح خلع دینے کا حکم فرمایا ۔ (بیہقی ، سنن کبریٰ، کتاب الخلع والطلاق ، باب الوجہ الذی تحل بہ الفدیۃ )
ربیع بنت معوذ سے منقول ہے کہ انھوں نے کہا : میں نے اپنے شوہر سے خلع میں سر کا چونڈا باندھنے کی ربن کے علاوہ ہر چیز دیدی۔
( فتح الباری، شرح صحیح البخاری)
حنفیہ ، مالکیہ ، شافعیہ ، حنابلہ چاروں مذاہب میں خلع بیوی کی جانب سے دیئے گئے معاوضہ کے بدل شوہر کی جانب سے طلاق دینے کا نام خلع ہے ۔ تفصیل کے لئے دیکھئے الفقہ علی المذھب الاربعۃ جلد ۴، ص : ۱۸۴۔۱۸۵
جو حضرات خلع کے لئے شوہر کی رضامندی کو لازم قرار نہیں دیتے کیا وہ اپنے دعویٰ کے اثبات میں قرآن مجید کی کوئی آیت ، کوئی ایک حدیث شریف ، یا کسی صحابی کا ایک قول ، ائمہ اربعہ میں سے کسی امام کا ایک قول پیش کرسکتے ہیں کیا ان کے نزدیک خلع سے ایک طلاق رجعی واقع ہوگی یا وہ طلاق بائن کا درجہ رکھتی ہے یا وہ فسخ نکاح کے حکم میں ہے ؟ اگر بیوی کو خلع حاصل کرنے کے بعد ندامت ہو تو کیا وہ دوبارہ اپنے شوہر سے رجوع ہوسکتی ہے یا وہ تجدید نکاح کرسکتی ہے ؟ اگر وہ خلع لے لے تو اس کی عدت کا کیا حکم ہے ، تین حیض اس کی عدت ہوگی یا ایک حیض؟ کیا وہ عدت کا نفقہ پانے کی مستحق ہوگی ؟ عدت کے دوران شوہر انتقال کرجائے تو وہ وارث ہوگی یا نہیں ؟ بیوی جب چاہے خلع لے سکتی ہے یا اس کے کچھ حدود ، قیود اور شروط بھی ہیں ؟ مخفی مبادکہ جو لوگ بیوی کو شوہر کے خلاف بھڑکارہے ہیں ان کے بارے میں حضور پاک صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا وہ ہم میں سے نہیں ۔(بخاری و مسلم )