بیوریو کریٹس کے خلاف کارروائیاں

بیوریو کریٹس کے خلاف کارروائیاں
وزیراعظم نریندر مودی نے ایک ہفتہ میں دوسری مرتبہ اپنی کابینہ کے ارکان کو برطرف کردیا ہے۔ معتمد خارجہ سجاتا سنگھ کی گذشتہ چہارشنبہ کو برطرفی کے بعد اب معتمد داخلہ انیل گوپال سوامی کی برطرفی پر بعض گوشوں سے مودی حکومت کی ستائش کی ہے تو بعض نے اسے انانیت پسندانہ کارروائی قرار دیا ہے۔ خارجہ و داخلی سطح کے محکموں کی کارکردگی کو مؤثر بنانا ہر حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ انیل گو سوامی پر الزام تھا کہ وہ سابق مرکزی وزیر متنگ سنگھ کی گرفتاری کو روک رہے ہیں جن کا نام فنڈ اسکام میں پایا گیا ہے۔ انیل گو سوامی کی برطرفی سے سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن کی آزادانہ کارروائی میں آسانی ہوگی۔ گذشتہ چند دنوں سے دہلی کے سیاسی و سرکاری حلقوں میں یہ سرگوشیاں ہورہی تھیں کہ شاردھا اسکام میں ملوث سابق مرکزی وزیر متنگ سنگھ کی گرفتاری کو روکنے کیلئے انیل گو سوامی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ سی بی آئی ڈائرکٹر نے ان کے خلاف ٹھوس ثبوت بھی پیش کئے تھے۔ وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے اپنے محکمہ کی کارکردگی پر آنے والی آنچ کو روکنے کیلئے انیل گو سوامی کی برطرفی عمل میں لائی ہے تو وہ اپنے کام اور من مانی کی وجہ سے اس شدید اقدام کے مستحق ہوتے ہیں کیونکہ شاردھا اسکام میں متنگ سنگھ کے خلاف جو الزامات عائد کئے ہیں وہ معمولی نہیں ہیں۔ ان کے خلاف کئی سنگین جرائم کی تحقیقات ہورہی ہے۔ سی بی آئی کو اس کے کام کاج میں رکاوٹ پیدا کرنا کسی بھی سرکاری اعلیٰ عہدیدار کے اختیار میں نہیں ہے لیکن انیل گو سوامی نے اس معاملہ میں اپنے اختیارات کا بیجا استعمال کیا تھا۔ وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے ان کی جگہ گوئیل کو نیا معتمد داخلہ بنایا ہے۔ دہلی اسمبلی انتخابات کے عین موقع پر مودی حکومت نے سرکاری محکموں کے بااثر بیورو کریٹس کے پر کاٹ دیئے ہیں۔ یو پی اے کے دور کے وفادار ان عہدیداروں کو مودی حکومت نے برطرف کردیا ہے تو اس کے پاس مصلحت بھی ہوسکتی ہے۔ انیل گو سوامی کی برطرفی تمام بیورو کریٹس کیلئے چوکسی کا پیام ہے کہ وہ اپنے سیاسی آقاؤں کی دوستی یا دشمنی سے دور رہیں۔ معتمد خارجہ اور ڈی آر ڈی او کے چیرمین اویناش چندر کی برطرفی کے بعد ان دونوں کے حق میں ساتھی بیورو کریٹس کی جانب سے کسی قسم کی ہمدردی ظاہر نہیں کی گئی۔ انیل گو سوامی کو 2013ء میں یو پی اے کی جانب سے معتمد داخلہ بنایا گیا تھا۔ یہ سیاسی سطح کی خراب لعنت ہے کہ جب حکومت بدل جاتی ہے تو بڑے بیورو کریٹس کی ملازمت بھی بدل دی جاتی ہے۔ ایک گو سوامی یا سجاتا سنگھ کی برطرفی سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ بیورو کریٹس کے خلاف سخت اقدامات کا عمل ختم ہوجائے گا۔ ہندوستان میں ہر شعبہ حیات کا یہی رواج ہے کہ طاقتور کمزور پر حاوی ہوتا ہے۔ وفاداریاں بدلتی ہیں تو تقدیر بھی کروٹ لیتی ہے۔ بااثر بیورو کریٹس بھی اپنی غلطیوں کی سزا نہیں پاتے۔ مذکورہ بالا 3 بیورو کریٹس کے خلاف جو سزاء تجویز کی گئی تھی اسے حکومت کے مطلب پرستانہ نظم و نسق کا ایک حصہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی بظاہر دہلی میں حکمرانی کی راہ داریوں اور کام کاج میں ڈسپلن چاہتے ہیں اس لئے آج کے سرکاری اعلیٰ افسروں کو ان دنوں کلبوں کا متواتر دورہ کرنے یا رسٹورنٹس میں گپ شپ کرتے ہوئے نہیں دیکھا جارہا ہے۔ کام کے اوقات میں آفیسرس کو اپنی میز سے چمٹے ہوئے دیکھا جائے تو اسے وقتی بڑی تبدیلی سمجھی جاسکتی ہے۔ سرکاری دفاتر میں ورک کلچر میں اگر بہتری لائی جارہی ہے تو پیداواری نتائج بھی مثبت برآمد ہوں گے۔ مودی حکومت نے بیورو کریٹس کو جوابدہ بنانے کیلئے جس طرح کے سخت اقدامات کئے ہیں اگر یہ کام بہت پہلے کیا جاتا تو تمام سرکاری محکموں کی کارکردگی میں نمایاں تبدیلی آتی ہے۔ رشوت کے خلاف ہم بھی کامیاب ہوتی۔ ویسے ہر حکومت کا یہ اختیار تمیزی ہوتا ہیکہ وہ اپنی پسند کا آفیسر اہم عہدہ پر فائز کرے۔ بیورو کریٹس کو برطرف کرنے کا عمل نیا نہیںہے۔ اس سے قبل اس وقت کے وزیراعظم راجیو گاندھی نے معتمد خارجہ اے پی وینکٹیشوری کو ایک پریس کانفرنس میں برطرف کردیا تھا۔ اس وقت ان کے اس فیصلہ زبردست بوچھال پیدا ہوا تھا لیکن مودی حکومت کے اقدامات پر کوئی خاص گڑبڑ نہیں ہوئی اس کا مطلب بیورو کریٹس بھی خودغرض ہوچکے ہیں۔ ایک پختہ کار ملک کے اندر اس طرح حکومت کی غیرشعوری کارروائی ہوتی ہیں تو پھر مسابقت کا جذبہ رکھنے والے بیورو کریٹس کے حوصلے پست کرنے والی حرکت قرار دی جاسکتی ہے۔
تیل کی قیمتوں میں کمی کے اثرات
ہندوستان میں پٹرول کی قیمت میں کمی ک ایہاں کی معیشت پر کس حد تک اثر پڑے گا اس پر تفصیلی دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ مرکز میں نریندر مودی حکومت عالمی مارکٹ میں آنے والی کمی سے ہندوستانی صارفین کو راحت پہنچا رہے ہیں مگر 6 ماہ کے اندر اس وقت خام تیل کی قیمت جس طرح کی درج کی جارہی ہے وہ عالمی تجارت پر منفی اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں 2014ء کے سب سے زیادہ اضافہ کے بعد اب تک 60 فیصد کی کمی آئی ہے۔ جون 2014ء میں فی بیارل تیل کی قیمت 115 امریکی ڈالر تھی۔ گذشتہ ایک سال کے دوران فی بیارل تیل کی قیمت میں تقریباً 54004 فیصد کی کمی درج کی گئی ہے۔ یوروپی ملکوں اور چین سے تیل کی طلب میں کمی کے باعث میں امریکی ڈالر میں مضبوطی آرہی ہے اور ہندوستان کے عوام اس اضافہ کو برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ جہاں تک ہندوستان کا تعق ہے۔ خام تیل کی قیمتوں میں کمی دراصل مودی حکومت کیلئے بڑی راحت ہے۔ اس سے ایک سطح تک مائیکرو اکنامک مینجمنٹ کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ اگر عالمی سطح پر تیل کی قیمت میں ایک ڈالر کی کمی آئی ہے تو اس سے ہندوستان میں تقریباً 40 ملین روپئے کی بچت ہوگی لیکناس کے بعد کئی تیل پراجکٹس بند ہوجائیں گے۔ ساری دنیا میں تیل برآمدات کے کاروبار میں زبردست ترقی مل رہی ہے۔ ایسے میں کمپنیوں کا دیوالیہ نکلے گا۔ لہٰذا مودی حکومت کو تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی و پیش کا قومی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کا جائزہ لینا ہوگا۔ اگر احتیاط سے کام نہیں لیا گیا تو معیشت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔