الہ آباد۔ 28مئی( سیاست ڈاٹ کام ) ضلع امروہہ میںایک اسکول ٹیچر کنچن ورما کو سیکشن 151( نقص امن کا خطرہ) کے تحت 27مئی کو ناری نکیتن بھیج دیا گیا ۔ وہ ایک مسلم نوجوان نصیر علی کے ساتھ شادی کی خواہشمند تھی ۔ اس جوڑے کو سب ڈیویژنل مجسٹریٹ ( دھنواہ ) کے اجلاس پر پیش کیا گیا جنہوں نے تا حکم ثانی نصیر علی کو عدالتی تحویل اور کنچن ورما کو ناری نکیتن بھیج دیا ۔بعد ازاں علی کو ضمانت پررہا کردیا گیا جبکہ کنچن ورما نے اپنے عاشق کی رہائی کیلئے ہائیکورٹ میں عرضی داخل کی تھی جس میں انہوں نے یہ شکایت کی کہ نصیر علی کو غیرقانونی طریقہ سے حراست میں رکھا گیا ہے اور انہیں اسکول جانے پر پابندی عائد کری گئی ہے ۔ آج جسٹس ترون اگروال اور جسٹس امر سنگھ چورہان پر مشتمل ڈیویژن بنچ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ ایک انسان کیلئے حق زندگی اور شخصی آزادی سب سے زیادہ اہم ہے اور کوئی بھی عہدیدار ( اکزیکٹیو) قانونی اختیار کے بغیر کسی شخص کے حق زندگی اور شخصی آزادی سے محروم نہیں کرسکتا ۔ہائیکورٹ ججس نے سب ڈیویژنل مجسٹریٹ پر تنقید و تعریض کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گذار اور خاتون جوڑا بالغ ہے اور اپنی مرضی کے مطابق پسندیدہ شخص کے ساتھ زندگی گذارنا چاہتی ہے کا بیان ریکارڈ کرنے کے باوجود بغیر کسی ٹھوس وجوہات کے ناری نکیتن میں محروس کردیا ۔ یہ کارروائی دستور کے دفعہ 21کی سنگین خلاف ورزی ہے ۔ عدالت نے پولیس کو ہدایت دی کہ اس خاتون کو والدین کے مکان جانے کیلئے تحفظ فراہم کرے اور مذہبی امتیاز کئے بغیر اپنے شریک حیات کے انتخاب کی آزادی دی جائے ۔