سال 2016 کے بہ نسبت 2017 میں غیر معمولی اضافہ
حیدرآباد۔یکم۔جنوری(سیاست نیوز) ہندو میریج ایکٹ۔1955کے تحت کی جانے والی بینطبقاتی شادیوں میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا ہے اور ریاست تلنگانہ ملک میں سرفہرست ہے جہاں لڑکا لڑکی دوسری ذات سے تعلق رکھنے والوں سے شادیاں کرنے لگے ہیں۔ سال 2017کے دوران ریاست تلنگانہ میں 210 ایسے جوڑوں نے ہندو میریج ایکٹ۔1955کے تحت شادی کی جو دوسرے ہندو مذہب کی ہی دوسری ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ مرکزی و ریاستی حکومت کی جانب سے ذات پات کے نظام کو ختم کرنے کی حوصلہ افزائی کیلئے شروع کردہ اسکیم کے تحت موصولہ درخواستوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہونے لگا ہے اور ہندو سماج میں دوسری ذاتوں میں شادی کرنے کے رجحان میں تیزی سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ سال گذشتہ یعنی 2016کے دوران ریاست تلنگانہ میں صرف 170 ایسی شادیاں ہوئی تھیں جو کہ دوسری ذات کے لڑکے اورلڑکیوں کے درمیان کی گئی تھیں لیکن سال 2017کے اختتام تک کے ریکارڈ کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس میں بھاری اضافہ ہونے لگا ہے۔ ریاستی حکومت کی جانب سے دوسری ذات کے لڑکے یا لڑکی سے شادی کرنے والے جوڑے کو 50 ہزار روپئے دیئے جاتے ہیں جبکہ مرکزی وزارت سماجی انصاف کی جانب سے ایسی شادیوں کے لئے 2.5لاکھ روپئے کی اجرائی عمل میں لائی جاتی ہے لیکن اس کے لئے شرط ہے کہ جوڑے میں لڑکا یا لڑکی کوئی ایک دلت طبقہ سے تعلق رکھنے والا ہو۔سال 2011کے دوران صرف 54 ایسی شادیاں ریکارڈ کی گئی تھیں جبکہ 2012میں 87 ریکارڈ کی گئی تھیں لیکن جب حکومت نے اس اسکیم کا آغاز کیا توایسی صورت میں ایسی شادیوں میں زبردست اضافہ ریکارڈ کیا جانے لگا۔حکومت کی اسکیم کے مطابق ہندو میریج ایکٹ کے تحت کی جانے والی ان شادیوں میں حکومت کی اسکیم سے استفادہ کیلئے رکن اسمبلی ‘ رکن پارلیمنٹ یا ضلع کلکٹر کا مکتوب درکار ہے اور اس شرط کے سبب کئی جوڑے حکومت کی اسکیم سے مستفید نہیں ہو پا رہے ہیں کیونکہ انہیں ان کے مکتوبات آسانی سے میسر نہیں آرہے ہیں۔اس کے علاوہ بین طبقاتی شادی کرنے والے جوڑوں کیلئے لازمی ہے کہ وہ ہندو میریج ایکٹ ۔1955کے تحت شادی کریں اور اسے رجسٹرڈ کرواتے ہوئے اپنے طبقات کے اعتبار سے سرکاری اسکیم سے استفادہ کی درخواست داخل کر سکتے ہیں۔