واشنگٹن 25 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ امریکہ سے قبل ایک قدامت پسند امریکی دانشوروں کی تنظیم نے اوباما انتظامیہ کو مشورہ دیا ہے کہ بین الاقوامی بحران جیسے عراق اور شام کے سائے ہند ۔ امریکہ تعلقات پر پڑنے نہ دیئے جائیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کے کامیاب دورہ واشنگٹن کی راہ ہموار ہوچکی ہے لیکن وائیٹ ہاؤز کو اِس بات کے سلسلہ میں چوکس رہنا ہوگا کہ دنیا بھر میں جاری بین الاقوامی بحران کے سائے اِس دورہ پر نہ پڑنے پائیں اور ہند ۔ امریکہ باہمی تعلقات کمزور نہ ہونے پائیں۔ اُنھوں نے اعلیٰ سطحی امریکی ماہر برائے جنوبی ایشیاء سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ ہم خیال دفاعی شراکت داروں جیسے ہندوستان کو عظیم تر اہمیت دی جانی چاہئے کیونکہ امریکہ کئی عالمی چیالنجوں کا سامنا کررہا ہے۔ ہند ۔ امریکہ تعاون خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے جبکہ بین الاقوامی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کا اور ایشیائے کوچک میں مستحکم توازن قوت برقرار رکھنے کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ مودی کے دورے کے موقع پر امریکہ کو اپنے معاشی اور تجارتی تعلقات کو وسعت دینی چاہئے۔ جب تک وزیراعظم فراخدلی کے پروگرام کی حمایت سے وابستہ رہیں اور دفاعی تعاون پر زور دینا چاہئے۔ وزیر دفاع چک ہیگل نے اگسٹ میں دورۂ ہند کے موقع پر جن اقدامات کا اعلان کیا تھا اُن میں پیشرفت ہونی چاہئے۔ لیزا کرٹس نے کہاکہ یہ دونوں ممالک کے لئے انتہائی اہم ہے کہ دفاعی پس منظر کو سمجھنے کا مظاہرہ کریں۔
جبکہ بی جے پی قائدین امکان ہے کہ اِس کا حساب کتاب ہندوستان کے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے کریں اور امریکہ سے قربت اختیار کریں۔ اُنھوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ہندوستان کی سرحد چین سے متصل ہے چنانچہ چینی تصورات کو بھی ہندوستان کی خارجہ پالیسی پیش نظر رکھے گی۔ لیزا نے کہاکہ اوباما انتظامیہ کو جنوبی ایشیاء میں انسداد دہشت گردی تحریکوں کے ساتھ دفاعی ہم آہنگی اختیار کرے۔ اُنھوں نے کہاکہ خاص طور پر افغانستان میں جب تک امریکی اور ناٹو افواج تعینات ہیں، ایسے اقدامات ضروری ہیں۔ القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری نے حالیہ عرصہ میں عہد کیا ہے کہ اپنا ایک جنوبی ایشیاء کی شاخ قائم کریں گے اور دولت اسلامیہ عراق میں قدم جمارہی ہے، اِس لئے ہندوستان اور امریکہ کو انسداد دہشت گردی تعاون کو اتنا مزید بنانا چاہئے کہ ماضی میں کبھی نہیں تھا۔ اوباما اور مودی کو اِن بڑھتے ہوئے خطروں کا مقابلہ کرنے کے لئے طالبان کو افغانستان میں واپس آنے کا موقع نہیں دینا چاہئے۔ اُنھوں نے کہاکہ امریکہ کو مودی کے دورہ کے نتائج کو اپنے حق میں کرنا چاہئے تاکہ مایوسی کا احساس پیدا نہ ہونے پائے۔ ماضی میں دونوں ممالک کے تعلقات بظاہر پُرامید توقعات دونوں ممالک میں پیدا کرچکے ہیں جن کو یکجہتی کے تعلقات میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اِسی وجہ سے دفاعی تجارت اور ٹیکنالوجی کے اقدامات جن کا مقصد دفتر شاہی کی رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے دفاعی تعاون قائم کرنا ہو، اہمیت رکھتے ہیں۔