بیمار ہونے پر اللہ سے حسن ظن رکھنا

تیسری قسط

اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ’’مصیبت مستقل بندہ مومن کے ساتھ او راس کے گھر میں ، اس کے مال میں اس کی اولاد میں رہتی ہے ، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں جا ملتا ہے کہ اس پہ کوئی گناہ باقی نہیں رہتا‘‘۔لہٰذا اگر کسی کے گناہ بہت زیادہ ہوں تو اللہ تعالیٰ اسے مصیبت میں گرفتار کر دیتے ہیں، جو اس کے گناہوں کے ازالہ کا سبب بن جاتا ہے اور دنیا کی تلخی آخرت کی تلخی سے بہتر ہے۔ بعض علماء کا قول ہے کہ اگر دنیا میں مصیبتیں نہ ہوتیں تو ہم قیامت میں خالی ہاتھ پہنچتے۔ مریض کو اس کے مرض کی بدولت آخرت میں جو لذت اور مسرت عطا کی جائے گی وہ دنیا کی فانی، وقتی لذتوں سے کئی لاکھ گنا زیادہ ہے،کیوں کہ دنیا کی تلخی وتنگی آخرت کی راحت وفراوانی کومستلزم ہے، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’ دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے او رکافر کے لئے جنت‘‘۔ اورامام ترمذی نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ذکر کی ہے کہ قیامت کے دن جب لوگ ان لوگوں کے صبر وثواب کو دیکھیں گے کہ جو دنیا میں مصیبتوں، بیماریوں میں پھنسے رہے تو وہ یہ تمنا کریں گے کہ اے کاش! دنیا میں ہماری جلدوں کو قینچیوں کے ساتھ کاٹ دیا جاتا۔ جاری ہے

مریض کو اللہ تعالیٰ کا خاص قرب حاصل ہو جاتا ہے۔ حدیث قدسی ہے:’’ اے آدم کے بیٹے! میرا فلاں بندہ بیمار ہو گیا تھا اور تونے اس کی تیمارداری نہ کی ، اگر تو اس کی تیمارداری کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا‘‘۔ (مسلم عن ابی ہریرہ)
مرض کے ذریعے آدمی کے صبر کا پتہ چلتا ہے، جیسا کہ کہا گیا ہے کہ آزمائش نہ ہوتی تو صبر کی فضیلت ظاہر نہ ہوتی ، اگر صبر کیا تو بہت سی بھلائیاں حاصل کر لیں او راگر صبر نہ کر سکا تو سب کچھ گنوادیا۔ تو اللہ تعالیٰ بیماری کے ذریعے بندہ کے صبر کا امتحان لیتے ہیں۔ اب یا تو وہ سونا نکلتا ہے یا پھر کھوٹا… حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً منقول ہے کہ ’’ اجروثواب کی زیادتی تکالیف برداشت کرنے کے بقدر ہوتی ہے اوراللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت فرماتے ہیں تو اس کو آزمائش میں مبتلا فرما دیتے ہیں تو جو اس پر راضی ہو جاتا ہے اس کے لئے اللہ کی رضا ہے اورجو ناراض اس کے لئے اللہ کی ناراضگی ہے‘‘۔

اس سے یہ معلوم ہو گیا کہ اللہ رب العزت جب کسی بندے سے محبت فرماتے ہیں تو اس کے غموں کو زیادہ فرما دیتے ہیں او رجب کسی سے ناراضگی فرماتے ہیں تو اس کی دنیاوی آرائشوں وراحتوں کو وسیع تر فرمادیتے ہیں، خاص کر جب آدمی کا دین ضائع ہو جائے، نہ نماز کی کچھ فکر ہو ، نہ بقیہ فرائض کی ادائیگی کا کچھ ہوش اور حرام لذات میں ایسے پڑ جائے کہ حلال چیزوں سے بھی اجنبیت محسوس ہونے لگے۔
اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ بندہ مومن جب اللہ رب العزت کے فیصلے پر صبر وشکر کرتا ہے تو اس کو صابرین میں شمار کیا جاتا ہے، امام مسلم رحمہ اللہ نے حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت نقل فرمائی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ’’بندہ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اس کے ہر کام میں خیر ہے اور یہ ہر کسی کے لئے نہیں، صرف مومن کے لئے ہے کہ اگر اسے خوشی ملے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے تو اس کو اجر ملتا ہے او راگر پریشانی لاحق ہو تو وہ صبر کرتا ہے، تب بھی اُسے اجر ملتا ہے ، پس اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلے میں مسلمان کے لئے بھلائی ہے‘‘ ۔ یا اللہ! ہمیں ان لوگوں میں سے بنا کہ جب ان کو نعمت ملے تو وہ شکر کرتے ہیں اورجب پریشانی کا سامنا ہو تو صبر کرتے ہیں اورجب ان سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اپنے رب سے معافی مانگتے ہیں۔
مرض کے فوائد میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مریض پر اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اتمام ہوتا ہے او روہ اس طرح کہ جب اسے کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے تو خوف اسے گھیر لیتا ہے او رپھر یہی بیماری اور خوف اسے اللہ رب العزت کی توحید کی طرف مائل کر دیتا ہے اور وہ بزبان حال یہی کہہ رہا ہوتا ہے کہ اے مولیٰ! سب اطباء نے اپنی طبابت او رحکمت آزمائی اور وہ ناکام ہوگئے، اب کوئی ہے تو بس تو ہی ہے ، تیرے سوا مجھے کوئی شفا دینے والا نہیں۔ اس طرح مریض کا دل اللہ رب العزت کے ساتھ رابطہ میں رہتا ہے اور وہ ہر وقت پورے خلوص کے ساتھ اپنے خالق حقیقی اور پرورش کرنے والی ذات کو یاد کرتا ہے۔
علما فرماتے ہیں کہ جب بندہ اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے تو اللہ پاک ناراض ہوتے ہیں (اور یہ مضمون حدیث کا بھی ہے ) اور بندہ پر پریشانی نازل فرماتے ہیں، تاکہ وہ اللہ کی طرف متوجہ ہو او راسی سے دعا مانگے تو اللہ تعالی ٰاس پر انعامات کی بارش فرماتے ہیں۔ تاکہ وہ اللہ کا شکر ادا کرے۔
اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں کیا خوب انسان کا حال بیان فرمایا کہ جب اِنسان پر اللہ کی نعمتیں ہوتی ہیں تو اللہ تعالیٰ سے اعراض کرتا رہتا ہے او رجب اسے پریشانی لاحق ہوتی ہے۔تو بس لمبی لمبی دعائیں شروع کر دیتا ہے (پھر اس کو مسجد بھی اچھی لگتی ہے۔ داڑھی والے مولوی حضرات بھی اس کی آنکھ میں جچتے ہیں اور پگڑی اور شلوار قمیض میں ملبوس علما بھی اس کی نظر کو بھاتے ہیں) لہٰذا اس بیماری کی برکات ہوتی ہیں کہ جس نے کبھی مسجد کا رُخ نہ کیا ہو وہ بیماری کے بعد پانچ وقت کی نماز مسجد میں ادا کرتا نظر آتا ہے اور صبر وشکر، توکل وعاجزی، خشوع وخضوع، حلاوتِ ایمان سے بھرا بھرا دکھائی دیتا ہے۔ جو کہ اس کے ایمان میں زیادتی کا موجب ہوتا ہے۔
اور جو اس بیماری کے اندر بھی اللہ رب العزت کی طرف متوجہ نہ ہو بلکہ ٹوٹکوں پر اعتماد کرتا رہے اور کبھی کسی نجومی کو جاکر ہاتھ دکھائے تو، اس سے بدنصیب شخص اور کون ہو گا؟
بیماری کے ذریعہ اللہ رب العزت انسان کے دل کو تکبر وعجب اور فخر جیسی مہلک بیماریوں سے نجات عطا فرماتے ہیں، کیوں کہ اگر یہ روحانی بیماریاں انسان کے ساتھ مستقل رہیں تو سرکشی ونافرمانی جیسی دوسری بیماریاں اس کے اندر جنم لیتی ہیں اور انسان اپنی ابتدا وانتہا کو بھول جاتا ہے او رجوانی کی طاقت یا بڑھاپے کی جو شیلی صحت اس کو خود اعتمادی دیتی ہیں اور وہ اپنے علاوہ کسی کو تسلیم نہیں کرتا۔ پھر جب اللہ رب العزت کی طرف اس کے اوپر بیماریوں کی آزمائش ہوتی ہے تو اس کا نشہ، غرورو تکبر کا فور ہو جاتا ہے اور پھر اسے اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ اس کے اپنے قبضہ میں نہ اس کا نفع ہے، نہ نقصان، نہ زندگی نہ موت، کبھی کسی چیز کو یاد کرتا ہے تو اس کے ادراک پر قادر نہیں ہوتا، کبھی چیز کے بارے میں جاننا چاہتا ہے، لیکن جہالت اس کے دامن گیر رہتی ہے۔ کبھی کسی ایسی چیز کو حاصل کرنا چاہتا ہے جو اس کی ہلاکت کا سبب ہو اور کبھی ایسی چیز سے دور بھاگتا ہے جس میں اس کے لئے بھلائی ہو اور دن اور رات میں، کسی بھی وقت اس خطرہ سے محفوظ نہیں رہتا کہ اللہ تعالیٰ اپنی دی ہوئی نعمتوں میں سے دیکھنے اور سننے کی طاقت کو سلب فرمالیں، یا اس کی عقل میں فساد پیدا کر دیں ، یا اس سے اس کی محبوب دنیا چھین لیں اور وہ کچھ بھی نہ کرسکے، تو کیا اس سے زیادہ کوئی محتاج وذلیل ہے؟ نہیں ! تو پھر اسے تکبر وعجب کیسے زیب دے گا؟

بیماری اس بات کی علامت ہے کہ اللہ رب العزت بیمار کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتے ہیں، بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ جس سے بھلائی کرنے کا ارادہ فرماتے ہیں اُسے کسی بیماری سے دو چار فرماتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک دیہاتی کے پاس سے ہوا۔ آپ کو اس کی صحت وجسم بھلا معلوم ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلا کر پوچھا کہ تمہیں کبھی اُم ملدم محسوس ہوا؟ اسے نے پوچھا اُم ملدم کیا ہوتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ بخار۔ اس دیہاتی نے پوچھا کہ بخار کیا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ایسی گرمی جو جلد اور ہڈیوں کے درمیان پیدا ہو جاتی ہے، تو اس دیہاتی نے جواب دیا کہ نہیں، مجھے کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا آپ نے کبھی سر درد محسوس کیا؟ اس نے جواباً پوچھا کہ وہ کیا ہوتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ضربیں ہیں جو سر اور دونوں کنپٹیوں کے درمیان پڑتی ہیں۔ دیہاتی نے جواب دیا کہ میں نے کبھی ایسا محسوس نہ کیا۔ جب وہ دیہاتی چلا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو یہ چاہتا ہے کہ وہ کسی دوزخی کو دیکھے وہ اس دیہاتی کو دیکھ لے‘‘۔
اس لئے کسی نے کیا خوب کہا کہ ’’کافر کا جسم صحیح اور دل بیمار ہوتا ہے اور مسلمان کا دل صحیح اور جسم بیمار ہوتا ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ بیماری کا آنا بھی خیر ہے۔

بندہ مومن جب حالتِ صحت میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہو او راس کی نافرمانی سے بچتا ہو تو جب وہ بیمار ہوتا ہے تو اللہ پاک فرشتوں کو حکم فرماتے ہیں کہ ’’یہ بندہ صحت میں جو جو نیک کام کیا کرتا تھا ان کاثواب ہر دن اور رات کے اعتبار سے اس کے نامہ اعمال میں لکھتے رہو، چاہے وہ بیہوش ہو یا اس کی عقل جاتی رہے‘‘۔ یہ مضمون مسند احمد کی روایت کا ہے،جسے عبداللہ بن عمرو نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرمایا ہے اس کے علاوہ دوسری احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بیماری کی وجہ سے اس کے گناہ ایسے معاف ہوتے ہیں جیسے موسم خزاں میں درختوں سے پتے جھڑتے ہیں۔ اللہ اکبر
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت اپنے کسی خاص بندے کو اپنے ہاں ایک اعلیٰ اور خصوصی مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں ،لیکن وہ قلتِ اعمال یا کسی اور سبب سے اس مقام پہ نہیں ہوتا، تو اللہ رب العزت اسے کسی بیماری میں مبتلا فرما دیتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اس مقام کو جا پہنچتا ہے، ابن حبان نے اس مضمون کی حامل حدیث کو روایت فرمایا ہے اور اس میں فما یزال یبتلیہ بما یکرہ کے الفاظ ہیں اور اس ابتلا سے مراد بیماری اور دوسری کوئی آزمائش بھی ہو سکتی ہے۔