بیعت ،کسی کی حاکمیت اور برتری کو تسلیم کرنا

…گزشتہ سے پیوستہ…
بیعت کے دو بڑے مقاصد ہیں ، ایک تو کسی عقیدے سے وابستگی اور کسی کی تعلیم کو قبول کرنا ، دوسرے کسی کی حاکمیت اور برتری کو تسلیم کرنا ۔ چنانچہ رسول اکرم ﷺ مسلمانوں سے جو بیعت لیا کرتے تھے وہ انہی دو مقاصد کے لئے ہوتی تھی ۔
اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ( اے نبیؐ! ) جو لوگ آپ سے بیعت کررہے ہیں ، وہ درحقیقت اﷲ سے بیعت کررہے ہیں ، اﷲ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے ، اب جو کوئی اس عہد کو توڑے گا ، اس کا وبال اسی پر پڑے گا اور جو کوئی اس عہد کو پورا کرے گا جو اس نے اﷲ سے کیا ہے تو اﷲ اس کو بڑا اجر دے گا ۔ (فتح ۴۸:۱۰)
اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد فرمایا : اے نبی ﷺ! جب آپؐ کے پاس مسلمان عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کے لئے آئیں کہ وہ اﷲ کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہیں کریں گی ، چوری نہیں کریں گی ، بدکاری نہیں کریں گی ، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی ، کوئی ایسا بہتان نہیں باندھیں گی جو انھوں نے اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان گھڑلیا ہو (عربی محاورے کے مطابق ’’اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان بہتان باندھنے‘‘ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ کھلم کھلا کسی دوسری عورت پر غیرمرد سے آشنائی کی تہمت لگائی جائے ۔ دوسرے یہ کہ وہ بچہ تو جنے کسی اور کا اور شوہر کو یقین دلائے کہ یہ تیرا ہی ہے ) اور نہ کسی بھلے کام میں آپؐ کی نافرمانی کریں گی ، تو آپؐ ان سے بیعت لے لیا کریں اور ان کے حق میں مغفرت کی دعا کیا کریں، بے شک اﷲ بڑا بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔ (ممتحنہ ۲۰:۱۲)
مندرجہ بالا آیت میں فَبَایِعْھُنَّ کے لفظ سے بیعت لینے کا حکم صاف ظاہر ہے ۔ جس بات کا اﷲ تعالیٰ حکم دے وہ بدعت کیسے ہوگی ۔ بیعت کرنا تو ایک امر شرعی ہے لہذا شریعت میں کسی بات پر لوگوں سے اگر عہد لیا جائے کہ وہ اس کام کو انجام دیں گے تو اس کو بیعت کہتے ہیں ، خواہ پوری شریعت کا عہد لیا جائے یا کسی خاص بات کا عہد لیا جائے ۔
رسول اکرم ﷺ نے اﷲ تعالیٰ کے حکم سے متعدد مواقع پر ایسی بیعت لی ہے ۔ مثلاً آپؐ نے غزوۂ حدیبیہ کے موقع پر لوگوں سے اس بات پر بیعت لی تھی کہ وہ بھاگیں گے نہیں، ہرحال میں دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہیں گے ، خواہ انہیں زندگی سے ہاتھ دھونا ہی پڑے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اﷲ ان مومنوں سے راضی ہوا جب وہ درخت کے نیچے آپؐ سے بیعت کررہے تھے ان کے دلوں میں جو کچھ تھا، اﷲ کو معلوم تھا چنانچہ ان پر سکینت اُتاردی اور ان کو انعام میں ایک قریبی فتح عنایت فرمادی۔ (فتح ۴۸:۱۸)
سوال یہ ہے کہ یہ کس بات کی بیعت تھی ۔ حضرت سلمان بن اکوع رضی اﷲ عنہ سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے درخت کے نیچے کس بات پر بیعت کی تھی ؟ تو انھوں نے فرمایا : ’علی الموت‘ ہم نے موت پر بیعت کی تھی یعنی مرجائیں گے لیکن بھاگیں گے نہیں۔ چنانچہ اس بیعت پر مسلمانوں کو رضائے الٰہی کی بشارت ملی اور اُن کی حسن نیت کے اجر میں اﷲ تعالیٰ نے اُن کے دلوں میں سکینت اور اطمینان ڈال دیا اور انھیں ایک قریبی فتح سے ہمکنار فرمایا ۔ یہ بیعت پوری شریعت کی بیعت نہیں تھی ،بلکہ دین کے صرف ایک جزء ’جہاد‘ پر بیعت تھی، اسی وجہ سے اس کو بیعتِ جہاد کہا جاتا ہے ۔
اسی طرح ہجرت سے قبل نبوت کے بارہویں سال مدینہ کے بارہ افراد جب عقبہ کے مقام پر حضور ﷺ سے ملے تو آپؐ نے ان کو دین کی تعلیم ارشاد فرمائی اور حکم دیا : مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ تم اﷲ کے ساتھ کچھ بھی شریک نہ کرو گے اور نہ چوری کروگے اور نہ بدکاری کروگے۔
چنانچہ یہ بیعت، بیعت ارشاد کہلاتی ہے ۔ بیعت لینے کے بعد آپؐ نے ارشاد فرمایا : تم میں سے جو بھی ان باتوں پر وفاداری کے ساتھ قائم رہے گا تو اﷲ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل فرمائے گا اور اس کی مغفرت ہوجائیگی اور اگر کوئی اس بیعت کو توڑدے گا تو اس کو اگر اس دنیا میں سزا مل جائے تو وہ آخرت کی سزا سے بچ جائے گا اور اگر دنیا میں اس کو سزا نہ ملی تو آخرت میں اﷲ تعالیٰ چاہے تو معاف کردے یا چاہے تو سزا دے۔ اس کو اختیار ہے ۔
حضرت جریر بن عبداﷲ الجبلی فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے مجھ سے اس بات پر بیعت لی تھی کہ میں ہر مسلمان سے خیرخواہی کروں ۔ رسول اکرم ﷺ سے اس طرح کی مختلف بیعتیں لینا ثابت ہے چنانچہ یہ بیعتیں ، بیعت اسلام ، بیعت جہاد ، بیعت توبہ ، بیعت ارشاد وغیرہ کہلاتی ہیں اور قرآن و احادیث میں اس قسم کے بہت سے واقعات مذکور ہیں۔
بیعت کی دو بڑی قسمیں ہیں : ایک بیعتِ خلافت اور دوسری بیعتِ طریقت ۔ تاریخ اسلام میں خلفاء ، عوام سے اطاعت اور وفاداری کی جو بیعت لیا کرتے تھے وہ بیعت خلافت کہلاتی ہے ۔ حضرت امام حسینؓ نے یزید کی جس بیعت سے انکار فرمایا تھا وہ یہی بیعت خلافت تھی ، چنانچہ اسی انکار کے نتیجے میں واقعہ کربلا رونما ہوا ۔
بیعت کی دوسری قسم بیعت طریقت کہلاتی ہے ، اس کا دوسرا نام بیعت ارشاد ہے ۔ یہ بیعت عہد رسالت سے آج تک جاری ہے اور ان شاء اﷲ قیامت تک جاری رہے گی ۔ یہ وہ بیعت ہے جو کوئی پیرطریقت یا شیخ یا مرشد استحکام عقائد ، پابندیٔ شریعت ، مداومت ذکر ، تزکیۂ نفس ، مخالفتِ نفس، حُسن اخلاق ، اختیار معروفات اور اجتناب منکرات پر اپنے کسی مرید سے لیتا ہے ۔ یہ بیعت، بدعت کیسے ہوجائے گی جب کہ حضور ﷺ سے متعدد مواقع پر اس طرح کی بیعت ثابت ہے ۔