بیرون ممالک میں متبادل ادویات کا رجحان ، ہندوستان میں سرکاری طور پر نظر انداز

طب یونانی عدم توجہ کا شکار ، سوتیلے سلوک کی کئی مثالیں
حیدرآباد۔ 25ڈسمبر(سیاست نیوز) دنیا بالخصوص مغربی ممالک متبادل ادویات کی جانب متوجہ ہونے لگے ہیں اور ان پر تحقیق کی جانے لگی ہے اور متبادل ادویات کو کافی اہمیت حاصل ہورہی ہے لیکن ہندستان میں متبادل ادویات کے رجحان کو حاصل ہونے والے فروغ کو سرکاری طور پر نظر انداز کئے جانے کی شکایات میں اضافہ ہی ہوتا جارہاہے اور کہا جا رہا ہے کہ اب ان ادویات یا طریقۂ علاج کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ متبادل ادویات میں آیورویدا کے ساتھ ہومیوپیتھی اور یوگا کو کافی تیزی سے شہرت حاصل ہورہی ہے اور دنیا کے مختلف گوشوں میں ان طریقہ علاج کی پذیرائی کی جانے لگی ہے اور خانگی کمپنیاں ان طریقوں کو اختیار کرتے ہوئے کروڑہا روپئے کی سرمایہ کاری حاصل کر رہی ہیں اور دولت کما رہی ہیں لیکن اس کے برعکس طب یونانی جو مؤثر طریقہ علاج تصور کیا جاتاہے اس طریقہ علاج کے فروغ کی جانب کوئی متوجہ نہیں ہوتا بلکہ اس طریقہ علاج کے ساتھ بھی سوتیلے سلوک کی کئی مثالیں ملتی ہیں اور خود سرکاری محکموں میں موجود اس طریقہ علاج کے ماہرین کو بھی اس کے فروغ میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی اور نہ ہی حکومت اس طریقہ علاج کو فروغ دینے کے لئے کوئی سرگرم کوشش کرتی نظر آرہی ہے ۔ شہر حیدرآباد میں موجود نظامیہ شفاء خانہ یونانی چارمینار جو کہ نہ صرف شہریان حیدرآباد بلکہ پڑوسی ریاستوں کے مریضوں کے لئے بھی انتہائی اہم دواخانہ تصور کیا جاتاتھا لیکن گذشتہ چند برسوں کے دوران طب یونانی کو بھی مسلم کی نظر سے دیکھا جانے لگا ہے اور دواخانہ میں ترقیاتی و تعمیری کاموں کے صرف افتتاح ہو رہے ہیں لیکن عملی طور پرنظامیہ شفاء خانہ یونانی چارمینار کی حالت انتہائی ابتر ہوتی جارہی ہے۔ محکمہ آیوش ہو یا دواخانہ کی ترقی کیلئے موجود کمیٹی کے ذمہ دار دونوں کی جانب سے دواخانہ کی ترقی کو نظر انداز کئے جانے کے سبب شفاء خانہ کی عمارت حیدرآبادی کہاوت ’’حیدرآباد نگینہ اندر مٹی اوپر چونا‘‘ کی مثال بنی ہوئی ہے۔ دواخانہ میں پانی کی عدم سہولت کے علاوہ عملہ کی قلت کے سبب مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اس عمارت میں موجود کالج میں تعلیم حاصل کر رہے طلبہ و طالبات کا کہناہے کہ ملک بھر میں ’’سوچھ بھارت‘ ریاست تلنگانہ میں ’’سوچھ تلنگانہ ‘‘ اور شہر حیدرآباد میں ’’سوچھ حیدرآباد‘‘ مہم چلائی جا رہی ہے لیکن شفاء خانہ یونانی چارمینار کی صورتحال دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ اس عمارت میں کتنے عرصہ سے جاروب کشی نہیں ہوئی ہے اور کلاس رومس بھی دھول سے اٹے ہوئے ہیں۔ اتنا ہی نہیں دواخانہ میں صفائی کا کوئی مناسب انتظام نہ ہونے کی متعدد شکایات مریضوں اور ان کے افراد خاندان کی جانب سے کئے جانے کے باوجود بھی دواخانہ کے انتظامیہ کی جانب سے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا جاتا بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ سرکاری دواخانہ ہے کوئی کارپوریٹ دواخانہ نہیں کہ مریضوں کی ہر سہولت کا خیال رکھا جائے۔ متبادل ادویات کے بڑھتے رجحان کے اس دور میں طب یونانی کے متعلق اختیار کی جانے والی اس بے اعتنائی کے سبب طب یونانی کا مستقبل خطرہ میں پڑ سکتا ہے اسی لئے یونانی طریقہ علاج کے فروغ کیلئے دواخانہ کی صورتحال کو پہلے بہتر بنائے جانے کی ضرورت ہے۔