محمودغزنوی کے زمانے میں غزنی کے ایک قاضی کے پاس اس کے ایک دوست تاجر نے اشرفیوں کی ایک تھیلی بطور امانت رکھوائی اور خود کاروبار کیلئے دوسرے ملک چلا گیا۔ واپسی پر اس نے قاضی سے اپنی تھیلی مانگی جو اس نے واپس کردی اور کہا کہ میاں دیکھ لو جس طرح تم نے اسے بند کیا تھا، یہ اسی طرح سے ہے نا ! تاجر تسلی کرکے تھیلی لے گیا۔ گھر جاکر اس نے تھیلی کھولی تو اشرفیوں کی بجائے اس میں تانبے کے سکے تھے۔ اس نے قاضی کے پاس آکر کہا کہ اس میں جو اشرفیاں تھیں وہ کہاں گئیں؟ قاضی نے جواب دیا ’’ بھئی! جس طرح تم بند تھیلی دے گئے تھے میں نے اسی طرح تمہارے حوالے کردی۔ اب مجھے کیا معلوم کہ اس میں اشرفیاں تھیں یا تانبے کے سکے۔ ‘‘ تاجر فریاد لے کر سلطان محمود غزنوی کے پاس گیا اور سارا واقعہ سلطان کو سنادیا۔ سلطان نے سمجھ لیا کہ تاجر سچ کہتا ہے لیکن اس کا کوئی جواب نہ تھا کہ بند تھیلی میں اشرفیوں کے بجائے تانبے کے سکے کیسے چلے گئے؟ سلطان نے کہا کہ تم یہ تھیلی میرے پاس رہنے دو اور انصاف کرنے کا کوئی طریقہ سوچنے کیلئے مجھے کچھ دن کا وقت دو۔ تاجر نے وہ تھیلی سلطان کے حوالے کی اور خود چلا گیا۔ سلطان نے کچھ دیر سوچا اور پھر اپنے خنجر سے اس قالین کو ایک طرف سے کاٹ دیا جو تخت پر بچھا ہوا تھا اور اس کے فوراً بعد حکم دیاکہ ہم شکار کو جائیں گے، چنانچہ سلطان شکار پر روانہ ہوگیا۔ بادشاہ کی روانگی کے بعد جب وزیر وغیرہ واپس لوٹے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ تخت شاہی کا قالین ایک طرف سے کٹا ہوا ہے۔ سب سوچنے لگے کہ اب کیا کیا جائے۔ شکار سے واپسی پر تین دن کے بعد جب سلطان کو یہ پتہ چلے گا کہ قالین کٹ گیا ہے تو خدا جانے کس کس کی شامت آئے۔ وہ یہ بات سوچ ہی رہے تھے کہ ان میں سے ایک بول اُٹھا’’ ارے یار کیوں فکر کرتے ہو؟ احمد رفوگر کو بلا لو، وہ اس کو ایسا بنادے گا کہ بادشاہ کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوگی کہ کبھی قالین کٹا تھا۔ چنانچہ احمد رفوگر کو بلاکر اس سے کہا گیا کہ جس قدر جلد ہوسکے قالین کی اس طرح مرمت کردو کہ کوئی یہ نہ جان سکے کہ اسے رفو کیا گیا ہے۔ احمد رفوگر نے یہ کام دو دن میں مکمل کردیا۔تیسرے دن سلطان شکار سے واپس آیا تو اس نے قالین کو صحیح سالم پایا۔ بادشاہ خود یہ نہ جان سکا کہ اسے کہاں سے رفو کیا گیا ہے؟ ۔ سلطان نے اپنے وزیروں سے کہا کہ یہ قالین کاٹ کر مرمت کرایا گیا ہے۔ وزیروں نے قسمیں کھائیں کہ عالیجاہ ! ایسا نہیں ہوا۔ اس پر سلطان نے کہا کہ میں نے خود اس قالین کو کاٹا تھا۔ بتایا جائے کہ کس نے اس کی مرمت کی ہے۔ بادشاہ کو بتایا گیا کہ یہ کام احمد رفوگر نے کیا ہے۔ سلطان نے احمدکو بلایا اور وہ تھیلی دکھا کر کہا ’’ دیکھو ! کہیں یہ تھیلی تو تمہارے پاس رفو کیلئے نہیں آئی تھی ؟ ‘‘ پہلے تو احمد نے انکار کیا مگر جب سلطان نے سختی سے پوچھا تو اس نے کہا ’’ جی ہاں ! یہ تھیلی فلاں قاضی صاحب میرے پاس لائے تھے جسے میں نے مرمت کیا تھا۔ ‘‘ بادشاہ نے اسی وقت قاضی کو بلایا اور کہا کہ تاجر کی اشرفیاں فوراً واپس کردو ورنہ تمہیں سخت سزا دی جائے گی۔ آخر قاضی نے وہ اشرفیاں لاکر بادشاہ کے سامنے پیش کردیں جو بادشاہ نے تاجر کے حوالے کردیں۔ اس کے خلاف مقدمہ چلایا اور اسے سزاء دلائی۔