پٹنہ ۔ 21 ۔ ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) وزیراعظم نریندر مودی نے اگرچیکہ بہار میں 4 بڑی ریالیوں کو مخاطب کیا ہے لیکن اسمبلی انتخابات ان کے وقار کا مسئلہ بن گئے ہیں۔ انہوںنے چیف منسٹر نتیش کمار کے ڈی این اے پر انگشت نمائی کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ راشٹریہ جنتادل ، جنتادل متحدہ اور کانگریس کے عظیم اتحاد کے خلاف مقابلہ آرائی کیلئے وہ اکیلے ہی قیادت کریں گے ۔ تاہم بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہنوز وزارت اعلیٰ کے امیدوار کا اعلان نہیں کیا ہے جبکہ قیادت کا مرکز اورمنبع نریندر مودی تک محدود ہوگیا ہے اور یہ فطری امر ہے کہ انتخابات میں کامیابی یا شکست کا سہرہ وزیراعظم کے سر باندھا جائے گا۔ دوسری طرف بہار کے انتخابی افق پر بعض عناصر نمودار ہوتے ہیں جو کہ روایتی ووٹ بینک میں دراڑ پیدا کرنے اور ووٹ کاٹنے کی کوشش میں ہے ، اس کا فائدہ نریندر مودی کو ہوگا یا نہیں انتخابی نتائج کے بعد ہی معلوم ہوگا لیکن ووٹ کاٹنے پر 5 قائدین آر جے ڈی اور جنتا دل متحدہ کے خلاف بی جے پی کی پس پردہ اعانت کر رہے ہیں ۔ بہار میں ایسے لیڈروں کو ’’ووٹ کٹوا‘‘ کہا جاتا ہے، جن کی حکمت عملی یہ ہوتی ہیکہ مخصوص فرقہ کے ووٹ تقسیم کرنے کیلئے امیدوار نامزد کئے جائیں چونکہ بہار میں ذات پات کی بنیاد پر انتخابات میں مقابلہ کیا جاتا ہے ۔ یہاں پر ہمیشہ یہ حربہ اختیار کیا جاتا ہے کہ امیدواروں کے روایتی ووٹ بینک میں سیندھ لگایا جائے جس کی کامیابی کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔ لہذا یادو برادری کے اکثریتی علاقہ میں کوئی پارٹی یا امیدوار یادو ، ووٹ تقسیم کرنے کا لائحہ عمل تیار کرتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان آر جے ڈی کو پہنچ سکتا ہے کیونکہ اس پارٹی کے سربراہ لالو پرساد پارٹی ہیں۔ گزشتہ ماہ 13 اگست کو وزیراعظم نے آر جے ڈی سے خارج کردہ لیڈر راجیش رنجن عرف پپو یادو سے ملاقات کی تھی جس کے باعث یہ قیاس آرائیاں کی جارہی تھی کہ پپو یادو ، علاقہ کوسی میں آر جے ڈی امیدواروں کو شکست دینے کیلئے اپنے امیدوار نامزد کریں گے ۔ پپو یادو 5 مرتبہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے ہیں اور علاقہ کوسی میں ایک طاقتور لیڈر تصور کئے جاتے ہیں اور دو پارلیمانی حلقوں میںان کا زبردست اثر و رسوخ پایا جاتا ہے ۔ مادھے پور سے وہ خود اور موپال سے ان کی اہلیہ رنجیت رنجن نمائندگی کرتے ہیں۔ پپو یادو کے ساتھ نوجوانوں کی قابل لحاظ تعداد ہے۔ اگرچیکہ یادو برادری بی جے پی کو پسند نہیں کرتی لیکن پپو یادو کے امیدواروں کے حق میں یہ برادری ووٹ دے گی تو بی جے پی کو زبردست تقویت حاصل ہوسکتی ہے ۔ سی پی ایم لیڈر اجیت سرکار کے قتل کیس میں الزامات کا سامنا کرنے والے پپو یادو کو مرکزی وزارت داخلہ نے ماہ جولائی میں وائی زمرہ کی سیکوریٹی فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی ۔ بی جے پی نے دور اندیشی کے ساتھ ایک ووٹ کاٹنے والے لیڈر کی حیثیت سے پپو یادو کا انتخاب کیا ہے کیونکہ وہ یادو برادری میں ایک مقبول عام لیڈر اور سیکولر اتحاد سے مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ کل ہند مجلس اتحاد المسلمین جو کہ شہر حیدرآباد کی ایک قدیم سیاسی جماعت ہے جس کی شناخت حال تک صرف مجلس اتحادالمسلمین کی حیثیت سے تھی اور کل ہند جماعت کا موقف حاصل کرنے کیلئے اب شہر حیدرآباد سے باہر اپنی سرگرمیاں پھیلانا شروع کردی ہے ۔ مہاراشٹرا میں 2 ا سمبلی حلقوں میں کامیابی کے بعد اب وہ بہار کے علاقہ سیما آنچل میں داخل ہوگئی ہے۔ لالو پرساد یادو کی انتخابات میں کامیابی کی کلید ہمیشہ یادو ۔ مسلمان اتحاد رہی ہے ۔ اگر جذباتی اور اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعہ مسلمانوں کے ووٹ تقسیم کردیئے گئے تو سب سے زیادہ نقصان آر جے ڈی اور اس کے بعد جنتا دل متحدہ اور کانگریس پہنچے گا جبکہ یہ سیکولر جماعتیں ہمیشہ مسلم رائے دہندوں کی نمائندگی کرتے آئے ہیں ۔ مرکزی وزیر کامرس نرملا سیتا رامن نے بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ بہار میں ایم آئی ایم کا داخلہ خوش آئند ہے اور بی جے پی کے حق میں سازگار ثابت ہوگا ۔ درحقیقت مجلس اتحاد المسلمین دو دھاری تلوار بن گئی ہے۔ ایک طرف وہ عظیم اتحاد کے ووٹوں کو تقسیم کرائے گی تو دوسری طرف مسلم جماعت کے خلاف ہندوؤں کو متحدہ کرائے گی۔ علاوہ ازیں نیشنلسٹ کانگریس پار ٹی کے بانیوں میں سے ایک طارق انور کی سیاست بھی نرالی ہے ، وہ صرف اپنے لیڈر کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ شرد پوار نے کانگریس سے علحدگی اختیار کرتے ہوئے مہاراشٹرا میں 4 رخی مقابلہ کیلئے مجبور کردیا تھا جس کے نتیجہ میں بی جے پی واحد بڑی پارٹی بن کر ابھری گو کہ بہار میں این سی پی کا ایک ایم پی ہے لیکن وہ بھی سیماآنچل میں مسلم ووٹ تقسیم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں ۔ طارق انور جو کہ 5 مرتبہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے ہیں اور جب سیتا رام کیسری کانگریس کے صدر تھے اس وقت ان کے سیاسی معتمد رہ چکے ہیں۔ این سی پی کو عظیم اتحاد کی جانب پیش کردہ 3 اسمبلی نشستوں پر مقابلہ کرنا چاہتے تھے لیکن پارٹی نے ووٹوں کی تقسیم کوا پنا شیوہ بنالیا ہے ملائم سنگھ یادو اترپردیش میں ایک قدآور لیڈر ہیں لیکن بہار میں ان کی جماعت سماج وادی پارٹی انتہائی کمزور ہے اور علحدہ محاذ قائم کرتے ہوئے انتخابات میں مقابلہ کرنے سے چند ایک باغیوں کو فائدہ ہوسکتا ہے لیکن ووٹوں کی تقسیم کے عظیم نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا۔ بہار میں یادو برادری ہمیشہ لالو پرساد یادو کی وفادار رہی ہے لیکن اسمبلی انتخابات میں ملائم سنگھ یادو کے داخلے سے سماج وادی پارٹی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ اس کے برخلاف مسلم ۔یادو ووٹ بینک منتشر ہوجائے گا۔ ایک اور لیڈر دیویندر پرساد یادو جو کہ مسلسل پانچویں مرتبہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے ہیں، عظیم اتحاد کیلئے خطرہ کی گھنٹی بن گئے ہیں۔ عرصہ دراز سے وہ جھانجر پور سے علحدگی کر رہے ہیں۔ اپنے پارلیمانی حلقہ میں واقع اسمبلی نشستوں پر ووٹوں کی تقسیم کے ذریعہ آر جے ڈی اور جنتا دل متحدہ کے امیدواروں کو شکست دینے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ ڈی پی کے نام سے مشہور یہ لیڈر اپنے فرزند کیلئے انتخابی ٹکٹ حاصل کرنے مختلف سیاسی جماعتوں سے رجوع ہ ہونے کے بعد بالآخر ملائم سنگھ یادو سے ہاتھ ملاکر ووٹ کاٹنے والے آلہ کار بن گئے ہیں۔ (بشکریہ : اکنامک ٹائمز)