بہار میں سیاسی بحران

محور ہے اقتدار سیاست کا آج کل
اقدار اور اصول کے دن اب گذر گئے
بہار میں سیاسی بحران
بہار میں چیف منسٹر کی تبدیلی کی کوشش نے جنتادل یو کے قائدین میں طاقت آزمائی اور جتن رام مانجھی کی اپنے سیاسی رفیق نتیش کمار کی مرضی کے برعکس وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات نے ایک افسوسناک سیاسی صورتحال کو جنم دیا ہے۔ ایوان اسمبلی میں طاقت آزمائی کا مرحلہ پیدا کرنے والے بہار کے قائدین نے 20 فبروری کو ایوان میں اکثریت ثابت کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ سابق چیف منسٹر و جنتادل یو کے لیڈر نتیش کمار چاہتے ہیں کہ جتن رام مانجھی کو ہٹا کر دوبارہ اقتدار حاصل کرلیا جائے۔ ان کی پارٹی بھی یہی چاہتی ہیکہ رام مانجھی اپنی کرسی چھوڑ دیں لیکن کرسی کے قصہ نے انہیں پارٹی کے خلاف بغاوت کرنے پر اکسایا ہے۔ اسی لئے وزیراعظم مودی سے ملاقات کرکے بہار بی جے پی یونٹ کے ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی اکثریت ثابت کرنے کیلئے کسی بھی رکن اسمبلی سے تائید حاصل کریں گے۔ جنتادل یو کے ریاستی صدر بی نارائنا سنگھ نے گورنر کو مکتوب پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہیکہ پارٹی کے چیف منسٹر نتیش کمار کے حق میں 130 ارکان اسمبلی اٹھ کھڑے ہیں لیکن جتن رام مانجھی کا جب چیف منسٹر کی کرسی چھوڑنے کا ارادہ نہیں ہے تو وہ اپنی بقاء کیلئے دشمن سے بھی ہاتھ ملانے سے گریز نہیں کریں گے۔ مودی سے ملاقات کے بعد انہوں نے دلت کارڈ کھیلنے کی کوشش کی اور کہا کہ گذشتہ 35 سال سے میں نے خود کو کسی بڑے عہدے کے حصول کی دوڑ سے دور رکھا تھا۔ اب اگرچیکہ میں خود کو ایک ربر اسٹامپ چیف مسٹر سمجھتا ہوں اور میں نے اسی خیال کو درست کرنے کی کوشش کی تو مجھ پر تنقیدیں کی جارہی ہیں کہ میں اپنے قد سے اونچا اٹھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ بہار میں اٹھنے والا سیاسی بحران دراصل مرکز کی بی جے پی حکومت یا وزیراعظم نریندر مودی کے حصول اقتدار کے منصوبہ کا حصہ سمجھا جارہا ہے۔ بہار کے دلتوں کے ووٹوں پر نظر رکھنے والی بی جے پی کو جتن رام مانجھی کا ساتھ ہونا ضروری ہے لیکن بی جے پی پے در پے اپنے غلط سیاسی فیصلوں کے ذریعہ قومی سطح پر حاصل کردہ وقار کھوتے جارہی ہے۔ دہلی اسمبلی انتخابات کیلئے کرن بیدی کو چیف منسٹر امیدوار بنا کر ہی بی جے پی نے غلطی کی تھی۔ اب وہ بہار میں نتیش کمار کو کرسی سے دور رکھنے کیلئے مانجھی کی حمایت کرنا چاہتی ہے تو اس کے تباہ کن سیاسی نتائج برآمد ہوں گے۔ بہار کی 233 رکن اسمبلی میں (10 نشستیں مخلوعہ ہیں) جنتادل یو کو اکثریت ثابت کرنے کیلئے 117 ارکان اسمبلی کی حمایت ضروری ہے۔ چیف منسٹر رام جتن مانجھی کا دعویٰ ہیکہ انہیں جنتادل یو کے 26 ارکان کی تائید حاصل ہے۔ آر جے ڈی کے 24 ارکان اور کانگریس کے 5 ارکان سی بی آئی کے ایک رکن نے نتیش کمار کی حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ نتیش کمار کے گروپ نے 97 ارکان اسمبلی کی حمایت کا دعویٰ کیا ہے۔ بی جے پی کے 87 ارکان ہیں۔ اسپیکر ادے نارائن چودھری نے نتیش کمار کو جنتادل یو کا ایک گروپ قرار دیا ہے اور پارٹی لیجسلیچرس نے جتن کمار کو اپنا لیڈر منتخب کرلیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ کیا مودی مسئلہ کا حل نکالیں گے یا بذات خود بہار بحران کا حصہ بن جائیں گے۔ بہار کی موجودہ سیاسی صورتحال کی جو داغدار تاریخ رقم ہوگی اس میں بی جے پی کو ایک عامل قوت کے طور پر نتیش کمار کی راہ میں رکاوٹیں کھڑا کرتے ہوئے دیکھا جائے گا۔ فرقہ پرستی کی بیل کو منڈھے چڑھانے کی ہر ممکنہ کوشش کی جارہی ہے۔ بہار میں نتیش کمار کو عوامی لیڈر سمجھا جاتا ہے۔ آنے والے اسمبلی انتخابات میں وہ پارٹی کے نمائندہ لیڈر ہوں گے۔ دہلی میں بی جے پی کے مقابلہ اروند کجریوال کی طرح نتیش کمار بھی اپنا عوامی وزن رکھتے ہیں۔ اس لئے سیکولر رائے دہندوں کو ان سے کئی توقعات وابستہ ہیں۔ کجریوال کی طرح وہ بھی تحقیقات پر مبنی انتخابات میں بی جے پی پر بھاری پڑ سکتے ہیں۔ جتنادل یو نے بھی نتیش کمار کو اپنا ترقیاتی چہرہ بنایا ہے خاص کر جنتاپریوار پارٹیوں کے انضام کے تناظر میں صدر آر جے ڈی لالو پرساد یادو نے انتخابات کیلئے بنائے جانے والے جنتا پریوار اتحاد کیلئے نتیش کمار کو لیڈر کے طور پر قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ قومی سطح پر نمائندگی کرنے والی بی جے پی کو بہار کی سیاست کو ایک مستحکم حکومت دینے میں مدد کرنی چاہئے۔ مرکز میں فی الحال بی جے پی کی مضبوط شخصیت کے طور پر نریندر مودی کو اروند کجریوال سے شکست ہورہی ہے تو بہار میں نتیش کمار بھی اروند کجریوال کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کامیاب ہوسکتے ہیں۔