بہار میں اقتدار کی رسہ کشی

خود بخود چاک ہوگئے دامن
پھر سے آئی نہ ہو بہار کہیں
بہار میں اقتدار کی رسہ کشی
بہار میں آج جیتن رام مانجھی کو سخت آزمائش کا سامنا ہے ۔ انہیں ایوان اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کرنی ہے جبکہ ان کی پارٹی جنتادل یو نے انہیں پارٹی سے خارج کردیا ہے ۔ ان کے ساتھ سات دوسرے وزرا کو بھی پارٹی سے خارج کردیا گیا ہے جنہوں نے مانجھی کی تائید کا اعلان کیا تھا ۔ آخری لمحات میں بہار میں اسمبلی کی ہئیت ترکیبی ہی بدل گئی ہے کیونکہ اب تک برسر اقتدار رہنے والی جنتادل یو کو اصل اپوزیشن کا درجہ دیدیا گیا ہے اور بی جے پی اس سے محروم ہوگئی ہے ۔ چیف منسٹر جیتن رام مانجھی ایوان میں ایسے رکن ہیں جن کا کسی بھی پارٹی سے تعلق نہیں رہ گیا ہے ۔ بی جے پی اچانک اصل اپوزیشن جماعت سے محض ایک اپوزیشن بن کر رہ گئی ہے اور بہت ممکن ہے کہ وہ کل جمعہ کو ایوان میں تحریک اعتماد کے وقت مانجھی حکومت کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرے ۔ جیتن رام مانجھی بھی آخری وقتوں تک اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے ہر ممکن جدوجہد کر رہے ہیں ۔ وہ ارکان کو اپنی تائید میں رکھنے مختلف ترغیبات بھی دے رہے ہیں۔ انہوں نے پوری سیاسی بساط کے مطابق اپنے آخری ایام میں فیصلے کئے ہیں اور کچھ ایسے فیصلے بھی کئے ہیں جن کے انتخابی سیاست پر بھی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ دوسری جانب جنتادل یونائیٹیڈ کے لیڈر و سابق چیف منسٹر نتیش کمار بھی اپنے ہی جانشین مانجھی کو کل تحریک اعتماد میں شکست سے دو چار کرنے کیلئے ہر جتن کرنے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے ایوان اسمبلی میں اپنی پارٹی کیلئے اپوزیشن کا موقف حاصل کرتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ اپنا آخری حربہ استعمال کرلیا ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ جیتن رام مانجھی کو اقتدار سے بیدخل کرنے کے بعد خود دوبارہ چیف منسٹر کی کرسی پر فائز ہوجائیں ۔ نتیش کمار نے یہ اعتراف کیا تھا کہ عام انتخابات میں شکست کے بعد ان کا عہدہ سے استعفی ایک جذباتی فیصلہ تھا ۔ انہیں جیتن رام مانجھی کو چیف منسٹر بنانے کی اپنی غلطی کا احساس ہواتھا اور وہ اب اس غلطی کو سدھارنا چاہتے ہیں کیونکہ زندگی اور جمہوریت دونوں میں غلطیوں کو سدھارنا ایک مسلسل عمل ہے اور اس سے وہ بھی مستثنی نہیں ہیں ۔ چاہے جیتن رام مانجھی ہوں یا نتیش کمار ہوں دونوں ہی اقتدار کیلئے اپنی اپنی جانب سے حتی المقدور کوشش کر رہے ہیں۔
بہار میں جاریہ سال نومبر میں اسمبلی انتخابات ہوسکتے ہیں ایسے میں یہاں پیش آنے والے حالات بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ اقتدار کیلئے جو رسہ کشی چل رہی ہے وہ بظاہر تو نتیش کمار اور جیتن رام مانجھی کے درمیان چل رہی ہے لیکن در اصل یہ جنتادل یو اور بی جے پی کی سیاسی جنگ بن کر رہ گئی ہے ۔ بی جے پی اس بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جے ڈی یو کو کمزور کرنا چاہتی ہے اور اسی لئے جیتن رام مانجھی کو استعمال کرتے ہوئے انہیں سیاسی اثرات کے حامل فیصلے آخری ایام میں کروائے گئے ۔ بی جے پی لیڈر اوما بھارتی نے بہار کا دورہ کرتے ہوئے مانجھی کو دلتوں کا مسیحا قرار دیا تھا حالانکہ وہ اس وقت جے ڈی یو ہی میں تھے ۔ بی جے پی بہار اسمبلی انتخابات میں جے ڈی یو کو دلت مخالف قرار دے کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریگی ۔ نتیش کمار بھی چاہتے ہیں کہ چونکہ انتخابات کیلئے چند ماہ کا وقت باقی ہے اس لئے وہ ایک بار پھر چیف منسٹر بنیں اور انتظامیہ پر اپنی گرفت کو مستحکم کرے موثر انداز میں عوام کی رائے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ۔ نتیش کمار کے حوصلے دہلی اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی شاندار کامیابی کے بعد بلند ہوگئے ہیں۔ انہیں امید پیدا ہوگئی ہے کہ وہ بہار میں بی جے پی کی اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کو ناکام بناسکتے ہیں ۔ لالو پرساد یادو کی راشٹریہ جنتادل اور پھر کانگریس بھی نتیش کمار کے ساتھ ہیں اور یہ سب مشترکہ طور پرمقابلہ کرسکتے ہیں ۔ ایسے میں نتیش کمار نہیں چاہتے کہ ان کا اتحاد کمزور ہوجائے اور اگر انتخابات میں کامیابی ملتی ہے تو کسی اور کو وزارت اعلی کی کرسی حاصل ہوجائے ۔
بہار کا موجودہ بحران موجودہ معیاد کے مابقی چند ماہ کیلئے نہیں ہے بلکہ یہ آئندہ پانچ سال کی حکمرانی کے مقصد سے پیدا کیا گیا ہے ۔ اس میں ہر جماعت نے اپنے مستقبل کے منصوبوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے چالیں چلی ہیں ۔ ہر جماعت موجودہ صورتحال کا استحصال کرتے ہوئے اپنے مستقبل میں فائدہ حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے ۔ اس سارے عمل میں بہار کے مستقبل اور ریاست کی ترقی کے منصوبے کسی کے پیش نظر نہیں ہیں اور صرف سیاسی مفادات کو تمام اصولوں اور ضابطوں پر ترجیح حاصل ہوگئی ہے ۔ یہ صورتحال جمہوری عمل کا مضحکہ اڑانے کے مترادف ہے اور سیاسی جماعتوں کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ایسی صورتحال پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہئے تھا ۔ موجودہ بحران صرف سیاسی محرکات پر مبنی ہے اور اس کا عوامی مفاد سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔