بہار ‘ بی جے پی کیلئے مشکلات

رات کے گزرتے ہی اور ایک رات آئی
آپ تو یہ کہتے تھے دن نکلنے والا ہے
بہار ‘ بی جے پی کیلئے مشکلات
ریاست بہار میںبی جے پی کیلئے مشکلات ایسا لگتا ہے کہ کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہیں۔ ریاست میں سب سے پہلے تو نتیش کمار کے ساتھ اتحاد سے قائم کی گئی حکومت کے خلاف رائے عامہ ہموار ہوتی جا رہی ہے ۔ راشٹریہ جنتادل اور کانگریس نے اس حکومت کے خلاف عوام میں رائے عامہ بیدار کرنے کی مہم شروع کررکھی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ بتدریج یہ مہم اثر کرتی جائیگی ۔ اس کے علاوہ نتیش کمار حکومت کو مختلف مسائل پر بھی عوامی برہمی کا سامنا ہے ۔ نتیش کمار کی جنتادل یو کے قائدین اور کارکنوں میں الگ سے انتخابات کے مسئلہ پر الجھن پیدا ہوگئی ہے ۔ بہار میں آئندہ عام انتخابات میںنشستوں کی تقسیم کا عمل ٹیڑھی کھیر بنتا جارہاہے ۔ حالانکہ بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے نتیش کمار سے ملاقات کرتے ہوئے اس مسئلہ کی یکسوئی کرلینے کا دعوی کیا ہے اور بظاہر حالات سدھرتے نظر بھی آئے تھے لیکن دوسری حلیف جماعتوں سے اس اتحاد کیلئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں ۔جہاں تک نتیش کمار کا سوال ہے ان کیلئے لوک سبھا سے زیادہ اہمیت کے حامل انتخابات اسمبلی کے ہیں جو 2020 میں ہونے والے ہیں۔ نتیش کمار کے سامنے اصل مسئلہ آئندہ لوک سبھا انتخابات نہیں بلکہ آئندہ اسمبلی انتخابات ہیں اور وہ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی حکمت عملی تیارکر رہے ہیں۔ بی جے پی کیلئے اسمبلی انتخابات سے زیادہ اہمیت کے حامل لوک سبھا کے انتخابات ہیں اور امیت شاہ نے نتیش کمار سے ملاقات کرتے ہوئے شائد اسی بات کو پیش نظر رکھا تھا ۔ یہ کہا جا رہا تھا کہ نتیش کمار بتدریج این ڈی اے سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور وہ ایک بار پھر عظیم اتحاد کا حصہ بن سکتے ہیں ۔ امیت شاہ کی ملاقات سے یہ صورتحال تو بدل گئی لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ نتیش کمار اپنے مطلب کی بات پر بی جے پی کو لانے میںشائد کامیاب ہوگئے اور انہوں نے اسمبلی انتخابات کی تیاریوںکو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے موقف کو مستحکم بنانے پر توجہ کے ساتھ کام کیا ہے ۔ بی جے پی کو اب اپنے مقصد کی تکمیل کی فکر لاحق ہوگئی ہے ۔
بہار میں این ڈی اے میںشامل جو جماعتیں ہیں وہ دھیرے دھیرے حکومت کے خلاف ناراضگی کا اظہار کرنا شروع کرچکی ہیں۔ علاقائی جماعتوں میں قدرے مستحکم مقام رکھنے والی مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی حالانکہ نشستوں کی تقسیم پر بھی منہ کھولنے لگی ہے لیکن فی الحال اس نے دلت تنظیموں کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے جوایس سی ایس ٹی ایکٹ پر مرکزی حکومت کے موقف کے خلاف احتجاج کا اعلان کرچکی ہیں۔ پاسوان کی پارٹی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف مرکزی حکومت نے آرڈیننس جاری کرنے میںکافی تاخیر کی ہے اوردلتوں اور پسماندہ طبقات کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے ۔ جو مسئلہ لوک جن شکتی پارٹی نے عوام میںپیش کیا ہے وہ فوری پیدا ہوا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ چند مہینوں سے زیر التوا ہے ۔ اس کو ایک عذر کے طور پر پیش کرتے ہوئے لوک جن شکتی پارٹی ایک بار پھر دلتوں میں اپنا ووٹ بینک مستحکم کرنا چاہتی ہے اور اسی کی بنیاد پر وہ آئندہ لوک سبھا انتخابات میں این ڈی اے میںنشستوںکی تقسیم پر سودے بازی کرنا چاہتی ہے تاکہ اسے زیادہ سے زیادہ نشستیں مل سکیں۔ اسی طرح ایک اور مرکزی وزیر اوپیندر کشواہا بھی این ڈی اے سے علیحدگی اختیار کرسکتے ہیں۔ بہار کی اپوزیشن جماعتوںاور خاص طور پر آر جے ڈی اور کانگریس کو امید ہے کہ آئندہ عام انتخابات آتے آتے اوپیندر کشواہا این ڈی اے سے علیحدگی اختیار کرکے اپوزیشن کے اتحاد کا حصہ بن سکتے ہیں۔
کچھ اتحادی جماعتیںپہلے ہی بہار میں این ڈی اے سے علیحدگی اختیار کرچکی ہیںاور کچھ اختلافی مسائل پر منہ کھولتے ہوئے اپنے عزائم واضح کرنے لگی ہیں۔ ایسے میںبی جے پی کیلئے بہار کی صورتحال مسئلہ بنتی جا رہی ہے اور یہاں اس کے لئے جو مشکلات ہیںوہ کم نہیں ہو رہی ہیں بلکہ ان میںاضافہ ہورہا ہے ۔ امیت شاہ اور دوسرے پارٹی قائدین بھلے ہی صورتحال کے قابو میں ہونے کے دعوی کریں لیکن زمینی حقائق الگ ہی تصویر پیش کررہے ہیں۔ ایسے میںدیکھنا یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات کا بگل بجتے بجتے این ڈی اے میں بہار میںکتنی جماعتیں رہ جاتی ہیںاور کتنی جماعتیں اس سے علیحدگی یا دوری اختیارکرنے میں عافیت محسوس کرتی ہیں۔فی الحال تو یہ یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ بہار کی صورتحال این ڈی اے کے حق میںزیادہ سازگار نہیں ہیں اور اس کیلئے یہاں مسائل ضرور برقرار ہیں۔