بہار انتخابات کی تیاریاں

دیکھنا ہے تو پھر دیکھ سمتِ فلک
اس زمیں پر بلا وجہ بادل نہ ڈھونڈ
بہار انتخابات کی تیاریاں
ملک کی دوسری اہم اور حساس ریاست بہار میں جاریہ سال کے اواخر میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان انتخابات کو ملک میں گذشتہ سال ہوئے لوک سبھا انتخابات کے بعد سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔ ان انتخابات کیلئے تیاریوں کا عام انتخابات کے بعد ہی سے عملا آغاز ہوگیا تھا ۔ پہلے تو چیف منسٹر کی حیثیت سے جیتن رام مانجھی کو بدلتے ہوئے ایک بارپھر مسٹر نتیش کمار نے ذمہ داری سنبھال لی تھی اور پھر اب بی جے پی کو ریاست میں کامیابی حاصل کرنے سے روکنے کیلئے جنتادل یو اور آر جے ڈی کے مابین بھی اتحاد ہوگیا ہے اور یہ بھی طئے کرلیا گیا ہے کہ اس اتحاد کے چیف منسٹر کے امیدوار مسٹر نتیش کمار ہی ہونگے ۔ نتیش کمار کو ریاست میں ترقی کا چہرہ کہا جاتا ہے جنہوں نے اپنی دو معیادوں کے دوران انتہائی پسماندگی کا شکار ریاست کوترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ اب بھی نتیش کمار ریاست میں عوام میں مقبولیت کو برقرار رکھنے اور انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے سخت جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ ایک اٹل حقیقت تھی کہ جنتادل یو ہو کہ آر جے ڈی ہو یا پھر کانگریس ہو کسی بھی جماعت کو تنہا بی جے پی سے مقابلہ کرنے کی طاقت حاصل نہیں تھی ۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے جنتا پریوار کی جماعتوں کے اتحاد کی کوششیں شروع ہوئیںاور پھر اب بہار میں جے ڈی یو اور آر جے ڈی کے مابین انتخابات میںمقابلہ پر سمجھوتہ ہوگیا ہے ۔ یہ سمجھوتہ کافی اہمیت کا حامل کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں ریاست میں بی جے پی کو اقتدار حاصل کرنے کی اپنی جدوجہد میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور اگر اس اتحاد میں کانگریس بھی شامل ہوجائے ‘ جس طرح ریاست میں ضمنی انتخابات میں ہوئی تھی ‘ تو بی جے پی کیلئے یہ سفر اور بھی مشکل ہوجائیگا ۔ بی جے پی کے مرکزی او ر ریاستی قائدین سبھی یہ ادعا کر رہے ہیں کہ اس اتحاد سے اس کو ریاست میں اقتدار حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئیگی اور ریاست کے عوام اس کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرینگے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تازہ ترین حالات بی جے پی کیلئے مشکل کا باعث ضرور بن سکتے ہیںاور اس کیلئے ریاست میںاقتدار حاصل کرنے کا سفر آسان نہیںہوگا ۔
راشٹریہ جنتادل کے سربراہ لالو پرساد یادو نے جے ڈی یو سے اتحاد کے مسئلہ پر زیادہ جلد بازی دکھانے کی کوشش کی تھی اور انہوں نے جے ڈی یو پر دباؤ ڈالتے ہوئے اس کوشش میں کامیابی حاصل کرلی ہے ۔ یہ جلد بازی ریاست میں اتحاد کو اپنے قدم مضبوطی سے جمانے اور انتخابات کا سامنا کرنے کی حکمت عملی تیار کرنے کیلئے وقت اورم وقع دونوں فراہم کریگی ۔ ویسے تو نتیش کمار بھی اس اتحاد کے حق میں تھے لیکن کچھ رکاوٹیںضرور تھیں جنہیںاب دور کرلیا گیاہے۔آر جے ڈی سربراہ لالو پرساد یادو اب اس اتحادمیںکانگریس کو بھی شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یقینی طور پر یہ کوشش کی جانی چاہئے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ریاست میں کانگریس کوئی بڑی طاقت نہیں رہ گئی ہے لیکن یہ بھی ایک نا قابل تردید حقیقت ہے کہ ریاست کے ووٹوں میںکچھ فیصد ضرور کانگریس کے حق میں جاتا ہے ۔ ایسی صورتحال میں جب ضمنی انتخابات میں مقابلہ ہوا تھا تو بی جے پی کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ یہ صورتحال ریاست کے اسمبلی انتخابات میںبھی دکھائی دے سکتی ہے اگر جے ڈَی یو ۔ آرجے ڈی اور کانگریس مل کر متحدہ مقابلہ کریں۔جس طرح لالو پرساد یادو کانگریس کو بھی اس اتحادمیںشامل کرنے کے حق میں ہیںاسی طرح نتیش کمار کو بھی اس سلسلہ میںپہل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان دونوںجماعتوںکوریاست میں اپنے حصے کی کچھ نشستوںکو کانگریس کیلئے چھوڑتے ہوئے اس اتحادکے حق میں اپنی سنجیدگی ظاہر کرنے اور بی جے پی کو روکنے کی کوششں کواستحکام بخشنے کا عملی مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔
جے ڈی یو ۔ آر جے ڈی اور کانگریس کو اس اتحادکوکامیاب بنانے اور ریاست میں بی جے پی کو اقتدار سے روکنے کیلئے کچھ وسیع القلبی سے کام لینے کی بھی ضرورت ہے ۔ جب تک ہر جماعت اپنے حصے کی کچھ نشستیں دوسروں کیلئے قربان کرنے تیار نہیںہونگی اس وقت تک اس اتحادکی کامیابی کے امکانات موہوم ہی ہوسکتے ہیں۔ریاست میںبی جے پی‘ وزیراعظم نریندرمودی کوانتخابی مہم میں زیادہ سے زیادہ جلسوںاور ریالیوںکیلئے مدعو کرتے ہوئے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریگی لیکن مقامی سطح پر جو جے ڈی یو اور آر جے ڈی کے قائدین جس حد تک اثر انداز ہوسکتے ہیں اس کی کوشش انہیں ضرور کرنی چاہئے اور بہارکو ترقی کے سفر پر آگے بڑھانے کے عزائم سے ریاست کے عوام کو واقف کروانے کی ضرورت ہے ۔ تینوںجماعتیںاگرسنجیدگی سے اس سلسلہ میں کام کریں تو ریاست میں نتائج بی جے پی کی توقعات کے برخلاف ہوسکتے ہیں۔