بہار میں سال 2005ء کے بعد سے سخت ترین انتخابی مقابلے ہورہے ہیں۔ 243 رکنی اسمبلی کے لئے 12 اکتوبر سے پانچ مرحلوں کے دوران رائے دہی ہوگی۔ سیاسی پارٹیوں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے۔ سیکولر اتحاد بنانے والی پارٹیوں حکمران جنتا دل (یو)، آر جے ڈی اور کانگریس کے قائدین کو مخالف پارٹی بی جے پی اور اتحادی جماعتوں کے ساتھ کانٹے کی ٹکر ہے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے نریندر مودی کے لئے بہار انتخابات کڑی آزمائش ثابت ہوں گے۔
سرزمین ہند تیز تر سیاست اور رنگارنگ انتخابی مہم کے لئے مقبول ہے۔ خاص کر بہار میں جب انتخابات کا مرحلہ آتا ہے تو یہاں سیاسی جنگ شدت اختیار کرجاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی رنگارنگ انتخابی مہم بھی زور پکڑتی ہے۔ جب سیاست داں ریاست بھر میں انتخابی مہم چلاتے ہیں تو ان کی درمیان ایک دوسرے کی پول کھولنے کی مہم بھی انتہا کو پہونچ جاتی ہے۔ چیف منسٹر بہار نتیش کمار کو عظیم سیکولر اتحاد کا مکھوٹا قرار دیتے ہوئے بی جے پی صدر امیت شاہ نے یہ بھی کہا کہ اگر نتیش کمار کو دوبارہ اقتدار دیا گیا تو بہار میں ’’جنگل راج 2‘‘ شروع ہوگا۔ بہار کی ترقی کے حوالے سے لڑے جانے والے یہ انتخابات یوپی میں دادری قتل واقعہ کے بعد فرقہ وارانہ نوعیت کی مقابلہ آرائی میں تبدیل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ سیکولر اتحاد کے قائدین جیسے آر جے ڈی صدر لالو پرساد یادو نے فرقہ پرستوں کے خلاف زبردست محاذ شروع کیا ہے۔ اگر دادری میں مسلم شخص کے قتل کا احساس رکھنے والے سیکولر رائے دہندوں نے نتیش کمار کے اتحاد کو ووٹ دیا تو یہ فیصلہ مرکز کی مودی زیرقیادت بی جے پی حکومت کے لئے زبردست طمانچہ ہوگا۔ بہار سیکولر اتحاد کو مضبوط بنانے کا سہرا چیف منسٹر نتیش کمار کے سَر جائے گا۔ بہار میں نتیش کمار کی مقبولیت اور مرکز میں نریندر مودی کی جھکولے کھاتی حکمرانی کے درمیان عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا انہیں اپنی ریاست کو فرقہ پرستوں کے حوالے کرنا ہے یا ترقی کی سمت گامزن کرنا ہے۔ لوک سبھا انتخابات کے دوران بہار کے جن رائے دہندوں نے نریندر مودی کو ووٹ دیا تھا،
وہ اب اسمبلی انتخابات میں چیف منسٹر نتیش کمار کی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دیں گے۔ بہار میں ترقی کی لہر کو نتیش کمار ماڈل سے مقبولیت مل رہی ہے۔ بی جے پی نے اپنے چیف منسٹر امیدوار کی حیثیت سے کسی لیڈر کو پیش نہیں کیا ہے تاہم بی جے پی امیدواروں میں سشیل کمار مودی اصل دعویدار ہیں مگر ان کی عوامی مقبولیت کے برعکس نتیش کمار کی مقبولیت دوگنی ہے۔ بہار میں بی جے پی کو ماضی کے بعض اہم قائدین کی مقبولیت کا سہارا لینا پڑے گا۔ ان میں خاص کر مخالف ایمرجنسی، مخالف کانگریس تحریک کے روح رواں جئے پرکاش نارائن کا نام ہی بی جے پی کی انتخابی تشہیر کا ذریعہ ہوگا۔ بی جے پی نے جئے پرکاش نارائن کو اپنا لیڈر کہا ہے اور 11 اکتوبر کو وہ جے پی کی 113 ویں یوم پیدائش کو بڑے پیمانے پر منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انتخابات کے پہلے مرحلے سے ایک دن قبل بی جے پی یوم جمہوریت بچاؤ مناکر رائے دہندوں میں جمہوریت اور مقبولیت کے درمیان فرق پیدا کرکے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ بی جے پی جو ایمرجنسی دور کے بعد جن سنگھ کی کوکھ سے جنم لینے والی پارٹی ہے،جئے پرکاش نارائن کی تحریک میں شامل دیگر اہم لیڈروں کے ناموں کا بھی سہارا لینے کی کوشش کرے گی۔ ان میں اٹل بہاری واجپائی اور ایل کے اڈوانی بھی شامل ہیں لیکن یوم جمہوریت بچاؤ منانے والی بی جے پی کو بہار کے رائے دہندوں کے سامنے اس سوال کا جواب بھی دینا ہوگا کہ اس نے ملک میں جمہوری انداز کو کس حد تک مضبوط بنانے کا کام کیا ہے۔
فرقہ پرست نظریہ کو فروغ دینے والی پارٹی اگر جمہوریت بچاؤ مہم کو اپنا ہتھیار بنا رہی ہے تو یہ انتخابات کے نتائج کے بعد ہی معلوم ہوگا کہ اس کو کہاں پر کس حد تک نقصان پہونچا ہے۔ بہار میں یہ انتخابات ہندوستان کے سیاسی مستقبل کا رُخ موڑ سکتے ہیں۔ اگر بی جے پی کو 243 رکنی ایوان میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکامی ہو تو وہ اپنی حلیف پارٹیوں کی مدد سے حکومت سازی پر غور کرسکتی ہے مگر اس کیلئے چیف منسٹر کے عہدہ کا سوال ہی پیدا ہوگا اور یہ بی جے پی مرکزی قیادت کے لئے دردِ سَر بن جائے گا کہ بہار میں چیف منسٹر کا عہدہ کس کے حوالے کیا جائے۔ حکمران پارٹی نے سیکولر اتحاد کو نقصان پہونچانے کیلئے ایک مسلم پارٹی کا کردار اگر سنگھ پریوار کے حق میں ہوگا تو پھر موقع پرستی اور ہندوتوا طاقتوں سے خفیہ ہاتھ ملانے کی بدترین مثال ہوگی۔ بہرحال بہار کے رائے دہندے صرف صاف ستھری قیادت کو ترجیح دینے کا تہیہ کرلیں تو پھر انہیں آنے والے دنوں میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ کسی بھی پارٹی کے پاس صاف ستھرے کردار والے قائدین کی تعداد نہیں کے برابر ہے۔ ہر پارٹی میں مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے امیدوار ہوں تو مخلص رائے دہندوں کے لئے لیڈر کا انتخاب مشکل ہوجاتا ہے۔