عظیم اتحاد کی کامیابی کیلئے ساز گار حالات، کانگریس قائدین کا تجزیہ
نئی دہلی۔ یکم اکٹوبر، ( سیاست ڈاٹ کام )بہار میں کانگریس پارٹی اس اُلجھن میں ہے کہ یادو برادری کے ووٹ متحد ہیں یا پھر آر جے ڈی سربرا لالو پرساد یادو کے ووٹ بینک حلیف جماعتوں میں منتقل ہوگیا ہے۔یہ عام تاثر پایا جاتا ہے کہ موہن بھاگوت اور اسد الدین اویسی کے عوامل انتخابی لڑائی میں کارآمد ثابت ہوں گے جو کہ اعلیٰ ذاتوں بمقابلہ پسماندہ طبقات ۔ سماجی انصاف بمقالہ ترقی اور سیاسی وراثت بمقابلہ آمریت کی بنیاد پر لڑے جارہے ہیں۔ بہارکانگریس کا ایک حلقہ اس تذبذب میں ہے آیا لالو پرساد کا یادو ووٹ بینک ہنوز متحد ہے ؟ کیونکہ سال 2009ء کے لوک سبھا انتخابات میں یہ ووٹ بینک بکھر جانے سے پاٹلی پتر سے آر جے ڈی سربراہ کو شکست ہوگئی تھی لیکن پارلیمانی حلقہ سارن سے کامیاب ہوگئے۔ علاوہ ازیں سال2010 میں ان کی اہلیہ و سابق چیف منسٹر رابڑی دیوی کو بھی اسمبلی انتخابات میں شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا جبکہ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں ان کی دختر میسا بھارتی پاٹلی پتر نشست سے ناکام ہوگئی تھیں۔ پردیش کانگریس کے بعض لیڈروں نے اس رجحان کی نشاندہی کی کہ یادو ووٹ بینک کمزور ہوتا گیا جس کے نتیجہ میں 2009 اور 2014 کے لوک سبھا انتخابات اور 2010 کے اسمبلی انتخابات میں راشٹرا جنتا دل کا مظاہرہ ناقص دیکھا گیا۔
ان لیڈروں کا تاثر ہے کہ اقرباء پروری کی وجہ سے لالو پرساد کے سماجی انصاف کے منصوبہ پر پانی پھیر گیا لیکن بہار کانگریس کے دیگر لیڈرس اس نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کرتے۔ اور بتایا کہ اگر یہ عوامل کارگر ثابت ہوتے تو رام ولاس پاسوان کی زیر قیادت لوک جن شکتی پارٹی ایک بھی نشست پر کامیاب نہیں ہوتی کیونکہ ایل جے پی پر بھی ایک خاندان مسلط ہے جس پر پاسوان کے فرزند اور بھائیوں کا کنٹرول ہے۔ تاہم مسٹر رام کرپال یادو جوکہ کبھی لالو پرساد کے قریبی رفیق تھے اور اب بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ہیں کہا کہ1990ء کی سیاست اب 2015میں کارگر ثابت نہیں ہوسکتی۔1989ء میں ایل کے اڈوانی کی گرفتاری سے لالو پرساد کا سیکولر امیج بلندی پر تھا لیکن اب حالات بدل گئے ہیں اور ایک مخصوص طبقہ میں سیکولرازم کا نعرہ اپنی کشش کھوتا جارہا ہے، اور تبدیلی کو لالو۔ رابڑی حکومت اورنتیش کمار کی زیر قیادت حکومت کے دور میں دیکھا گیا۔ لیکن بہار کے ایک سینئر کانگریس لیڈر نے بتایا کہ سرکاری ملازمتوں میں تحفظات پر آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کا حالیہ بیان، مجلس اتحادالمسلمین لیڈر اسد الدین اویسی کی سرگرم مہم اور اس بات میں پپو یادو کی سرد مہری عظیم اتحاد کے حق میں ساز گار ثابت ہوں گی اور اس اتحاد کو243رکنی اسمبلی میں 140سے زائد نشستوں پربہ آسانی کامیابی حاصل ہوجائے گی۔ اگر موہن بھاگوت کے بیان سے بی جے پی کے خلاف ریزرویشن موافق طبقات متحد ہوجائیں گے تو مسٹر اویسی کی موجودگی سے اقلیتوں میں یہ پیام جائے گا کہ وزیر اعظم کے روبرو اپنی بہادری دکھانا چاہتے ہیں اور مجلس کو بھی اس طرح ووٹ دیا جائے جس طرح بی جے پی کو دیا جاتا ہے تاہم یہ تبدیلیاں کانگریس کے حق میں کسی قدر فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہیں جبکہ پارٹی نے بیشتر غلط امیدواروں کا انتخاب کیا ہے۔