’’ بھارت بند ‘‘

ایک دو عیب ہی چھپ جائیں نظر سے سب کی
اتنی دولت تو بہر حال کمانا ہے اُسے
’’ بھارت بند ‘‘
ہندوستانی معیشت کو مستحکم کرنے کی پالیسیوں کے بجائے جب حکمراں طبقہ معاشی تباہی کی جانب لے جانے والے اقدامات کرے تو عوامی غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ مرکز کی نریندر مودی حکومت میں ملک کی معیشت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہے ۔ پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ سے ہر شعبہ متاثر ہورہا ہے ۔ ان قیمتوں میں کمی کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں کیوں کہ موجودہ حکومت نے کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ صاف کرتے ہوئے غلط معاشی پالیسیوں کو اختیار کیا ہے ۔ اس بدحال معیشت اور پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے ۔ اس اضافہ کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں کا ’’ بھارت بند ‘‘ کا حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوگا ۔ کیوں کہ یہ حکومت اس خود ساختہ بلندی پر پہونچ چکی ہے جہاں سے اسے کوئی خرابی دکھائی نہیں دے رہی ہے اور نہ ہی وہ عوامی ناراضگی کو محسوس کررہی ہے ۔ ویسے اپوزیشن کا ’ بھارت بند ‘ خود اس کی قوت اور ساکھ کا مظاہرہ کرنے میں ناکام دکھائی دیا ہے ۔ اسے ہندوستانی عوام کا ہی مقدر سمجھا جائے کہ ان پر ایسی پارٹیاں مسلط ہورہی ہیں جو حکومت چلانے کے لیے نا اہل ہیں ۔ یہ بحث ہورہی ہے کہ حکومت کو کس طرح مجبور کیا جائے کہ وہ پٹرولیم اشیاء کی موجودہ صورتحال کو ختم کرنے کے لیے متبادل راستے تلاش کرے ۔ کانگریس کے بھارت بند کو دیگر پارٹیوں جے ڈی ایس ، این سی پی ، ڈی ایم کے ، آر جے ڈی نے تائید کی ہے ۔ جب کہ بائیں بازو پارٹیاں علحدہ بند منا رہی ہیں ۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کے دریعہ اگر یہ حکومت عوام کی جیب سے 11 لاکھ کروڑ روپئے لوٹ رہی ہے تو عوام کو اس طرح کی لوٹ کھسوٹ کے خلاف حکومت سے اپنی شدید ناراضگی ظاہر کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ شدت سے مطالبہ ہورہا ہے کہ حکومت فوری طور پر ریاستوں میں سنٹرل اکسائز ڈیوٹی اور زائد ویاٹ کا بوجھ کم کردے ۔ پٹرول کو جی ایس ٹی کے تحت لانے پر زور دیا گیا ہے ۔ پٹرول کی قیمتیں ملک کے چار علاقوں میں مختلف ہیں ۔ سب سے زیادہ ممبئی میں 87.89 روپئے فی لیٹر پٹرول فروخت ہورہا ہے ۔ بی جے پی کی حکومت ہر محاذ پر ناکام ہے تو عوام کے غم و غصے کے باعث اس حکومت کو سبق سکھایا جاسکتا ہے لیکن یہ حکومت اپنی پالیسیوں کے ذریعہ عوام کا سر اور اس کی معاشی قوت کچل دینا چاہتی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی حکمراں طبقہ کی پانچوں انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں نظر آتا ہے ۔ آنے والے دنوں میں حکمراں طبقہ کے لوگ عام انتخابات میں قدم رکھیں گے تو عوام اس حکومت کی نا اہلی کا حساب کتاب لینے کی ہمت کریں تو ہوسکتا ہے کہ اس کا غرور اور گھمنڈ توڑا جائے گا لیکن عوام کا بڑا طبقہ اب بھی اس خواب غفلت میں ہے کہ ان کے لیے ’’ اچھے دن ‘‘ آنے والے ہیں ۔ اس حقیقت کو نظر انداز کردیا جارہا ہے کہ یہ حکومت پٹرول کی قیمتوں میں اندرون ملک اضافہ کررہی ہے جب کہ یہی پٹرول دوسرے ملکوں کو نصف قیمت میں برآمد کررہی ہے ۔ اپنے شہریوں پر اضافی بوجھ ڈال کر وہ دوسرے ملکوں کو سستے داموں میں فروخت کررہی ہے تو اس کی ان دھاندلیوں کا فوری نوٹ لے کر احتجاجی جذبہ کو آگے بڑھایاجائے تو حکومت کی خرابیاں عوام کے سامنے آشکار کی جاسکتی ہیں ۔ ان قیمتوں میں اضافہ کے بوجھ کو عوام پر ڈالتے ہوئے یہ حکومت ایسی مذموم حرکتیں کررہی ہے کہ اس کے خلاف عوام کو سڑکوں پر نکل آنا ہی پڑرہا ہے ۔ بھارت بند کو اگر مکمل کامیاب بنایا جاتا تو اس سے حکومت کی غیرت جاگنے کی امید پیدا ہوسکتی تھی ۔ لیکن اپوزیشن کا یہ بند عام پسے ہوئے غریب آدمی کے مفادات کا تحفظ کرنے سے قاصر دکھائی دیا ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عام آدمی اس بند کا حصہ بن کر حکومت کے خلاف اپنی شدید ناراضگی کو ظاہر کرنا ۔ گذشتہ 2014 کے عام انتخابات سے قبل جن جذبات اور احساسات کے ساتھ ملک کے عوام نے سڑکوں ، چوراہوں ، چھتوں پر کھڑے ہو کر ہاتھ ہلا ہلا کر مودی کی انتخابی مہم کا ساتھ دیا تھا اور روزگار ، خوشحالی ، ترقی کی امید میں ووٹ دیا تھا ، آج یہی جذبہ سرد پڑ گیا ہے ۔ یہ حکومت کی ناکامی کا مظہر ہے ۔ ہندوستانی عوام کو اب تو اس خطرے کی بو محسوس ہونی چاہئے کہ اگر یہ حکومت آئندہ بھی ان پر مسلط ہوجائے تو ملک کے حالات کس حد تک بدتر ہوجائیں گے ۔ غریب عوام کی روزمرہ زندگی کا کیا حشر ہوگا ۔ اپوزیشن کے اس اتحاد کا مظاہرہ اگر پہلے سے زیادہ مضبوط ہوجائے تو بلا شبہ تبدیلی کی لہر پیدا ہوسکتی ہے ۔ لیکن پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کے ذریعہ مہنگائی کا ابلیس فتح کے شادیانے بجا رہا ہے ۔ کالی بلائیں عوام پر منڈلا رہی ہیں ۔ اس حکومت میں نحوستوں کا خونی رقص ، ہجومی تشدد کی شکل میں عروج پر ہے تو ہندوستانی عوام کی آرزوئیں بدل دی جارہی ہیں ۔ اگر اب بھی عوام گم سم کھڑے رہ کر اندر ہی اندر چکرا کر رہنا پسند کریں گے تو پھر ان کے مستقبل کے سامنے مہنگائی کا اندھیرا ہی اندھیرا چھا جائے گا ۔۔