بچوں کے حقوق کے تحفظ میں اسکول انتظامیہ ناکام ، محکمہ تعلیمات بے حسی کا شکار

حکومت کی رہنمایانہ ہدایت نظر انداز ، ہراسانی پر خود کشی کے واقعات میں اضافہ
حیدرآباد۔2فروری(سیاست نیوز) فیس کی عدم ادائیگی کے سبب اسکول انتظامیہ کی جانب سے طلبہ اوراولیائے طلبہ کو ذلیل ورسواء کرنے کے باعث طالبہ کی خودکشی کے ایک اور واقعہ نے محکمہ تعلیم اور حکومت تلنگانہ کی تعلیم کی فراہمی اور اسکولوں کی من مانی کے خلاف کئے جانے والے اقدامات کی قلعی کھول دی ہے ۔ محکمہ تعلیم کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات کے متعلق حکومت کی جانب سے متعدد مرتبہ یہ کہا جا رہا ہے کہ بچوں کے حقوق کے سلسلہ میں اسکول انتظامیہ کو سخت رہنمایانہ خطوط جاری کئے جا رہے ہیں لیکن ان رہنمایانہ خطوط پر اسکول انتظامیہ کس حد تک عمل کر رہے ہیں اس کا اندازہ ان اموات سے ہو رہاہے جو فیس کی عدم ادائیگی کے سبب پیش آرہی ہیں۔ اسکول انتظامیہ کی جانب سے طلبہ کو فیس کی ادائیگی کے لئے ہراساں کرنے یا انہیں کلاس میں داخل ہونے نہ دینے کا حق اسکول انتظامیہ کو نہیں ہے کیونکہ بچوں کے ساتھ اس طرح کا رویہ انہیں دلبرداشتہ کرسکتا ہے لیکن اس کے باوجود دونوں شہروں کے اسکولوں میں اسکول انتظامیہ کی جانب سے اس طرح کی حرکات کی متعدد شکایات موصول ہوتی رہتی ہیں لیکن محکمہ تعلیم کی جانب سے عدم کاروائی کے سبب یہ شکایات معمول بنتی جا رہی ہیں۔ اسکول انتظامیہ فیس کی عدم ادائیگی پر رپورٹ کارڈ جاری نہیں کرتے اور بچوں کو امتحان تحریر کرنے سے روکتے ہیں اس کے علاوہ کلاس کے باہر گھنٹوں بچوں کو کھڑا کیا جاتاہے جو کہ بچوں کے حقوق کو سلب کرنے کے علاوہ ان پر ظلم کے مترادف ہے۔ فیس کے متعلق امور پر اگر اسکول انتظامیہ کو کوئی بات کہنی یا کرنی ہو تو اسکول انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ اولیائے طلبہ اور سرپرستوں سے کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ فیس کی عدم ادائیگی کے سبب بچہ کے ذہن پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔ محکمہ تعلیم کے علاوہ مختلف تنظیموں کی جانب سے اس سلسلہ میں توجہ مبذول کروائی جا چکی ہے لیکن اس کے باوجود اسکول انتظامیہ کی جانب سے یہ من مانی کا سلسلہ جاری ہے۔ پرانے شہر کے اسکولوں میں بھی طلبہ کے ساتھ اس طرح کے رویہ کے سبب طلبہ میں مایوسی پیدا ہورہی ہے اور طلبہ کے انتہائی اقدام کے واقعات منظر عام پر آرہے ہیں۔چند ماہ قبل فلک نما کے علاقہ میں واقع ایک اسکول میں معصوم طالبہ کے سرپرستوں کی جانب سے فیس کی عدم ادائیگی کے سبب طالبہ کو صبح 9بجے سے 4بجے تک دھوپ میں کھڑا کیاگیا اور جب سرپرستوں نے اسکول انتظامیہ سے فیس کی ادائیگی کے لئے 20یوم کا وقت طلب کیا تو وقت دینے سے انکار کردیا گیا اور اس واقعہ کے بعد یہ معصوم طالبہ اسکول جانے سے انکار کرنے لگی ہے اور کہہ رہی ہے کہ اسے اب ’’اسکول نہیں جانا ہے کیونکہ اسکول میں پیسے نہ دینے والوں کوباہر نکال دیا جاتاہے‘‘۔ شہر میں چلائے جانے والے اسکولوں میں بچوں کی نشو نما اور تربیت گھر سے زیادہ ہونے لگی ہے کیونکہ دن کا بیشتر حصہ بچوں کا اسکول میں گذرتا ہے اور جب اسکول میں ہی پیسہ کی اس قدر اہمیت و افادیت کا عملی درس دیا جانے لگے تو ایسے تعلیمی اداروں سے کس طرح ہمدرد نسل تیار ہوگی؟اسکولو ںمیں طلبہ کو فیس کے لئے ہراساں کرتے ہوئے ان میں اس بات کا احساس پیدا کیا جا رہاہے کہ تعلیم فروخت ہوتی ہے اور ان میں تعلیم خریدنے کی سکت نہیں ہے۔حکومت اور محکمہ تعلیم کو اس سلسلہ میں سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ فیس کیلئے ہراسانی کے واقعات کا تدارک ممکن بنایا جاسکے جو اب طلبہ کیلئے جان لیوا ثابت ہونے لگا ہے۔