بچوں کے اغواء کنندوں کے نام حملوں کی تحقیقات ضروری

سیاسی و فرقہ وارانہ نوعیت کی سرگرمیوں کا جائزہ لیکر خاطیوں کیخلاف کارروائی ضروری

حیدرآباد۔27مئی (سیاست نیوز) شہر حیدرآباد اور ریاست کے دیگر اضلاع میں بچوں کا اغواء کرنے والوں کی ٹولی کی افواہوں پر ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کی جانب سے وضاحت پیش کرتے ہوئے عوام کے نام پیامات کی اجرائی کے باوجود بھی ان افواہوں کو فروغ دینے اور ان افواہوں کی بنیاد پر ظالمانہ کاروائیاں آخر کیوں کی جا رہی ہیں اور ان کاروائیوں کے پس پردہ کونسی طاقتیں ہیں جو اس طرح کے حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نوجوانوں کو اکسانے کی کوشش میں مصروف ہیں!شہر حیدرآباد میں ہفتہ کی رات دیر گئے افواہوں کے بازار کے گرم ہوتے ہی شہر کا بازار سنسان ہوگیا اور سحر کے قریب محکمہ پولیس کی جانب سے حساس علاقوں میں پولیس کی طلایہ گردی میں اضافہ ہوگیا اتنا ہی نہیں بلکہ صبح کی اولین ساعتوں تک بھی شہر حیدرآباد کے ماحول میں تناؤ دیکھا گیا ۔ پھول باغ چندرائن گٹہ کے علاقہ میں بچوں کو اغواء کرنے والی ٹولی کے شبہ میں مخنثوں پر جس بے دردی سے حملہ کیا گیا اور ان پر پتھر ڈالتے ہوئے انہیں موت کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کی گئی ۔ ریاستی سربراہ پولیس مسٹر ایم مہندر ریڈی کی جانب سے وضاحت کئے جانے کے باوجود عوام میں اس طرح کی بے چینی واقعی پائی جاتی ہے یا پھر یہ بے چینی پیدا کرتے ہوئے کوئی ان حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہاہے! محکمہ پولیس کو اغواء کنندوں کے نام پر کئے گئے ان حملوں کی باضابطہ تحقیقات اور ان واقعات میں سیاسی و فرقہ وارانہ نوعیت کی سرگرمیوں کا جائزہ بھی لینا چاہئے اور غیر جانبداری کے ساتھ خاطیوں کے خلاف کاروائی کے ذریعہ شہر و ریاست میں پر امن فضاء کوبرقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ پڑوسی ریاست کرناٹک کے نتائج اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو اقتدار سے بیدخل ہونے کے فوری بعد فروغ پانے والی ان افواہوں کے دوران تلنگانہ راشٹر سمیتی کے منتخبہ عوامی نمائندے کی جانب سے مسلم شہری کو پیٹنے کی ویڈیو منظر عام پر آنا اور اس کے بعد اغواء کنندوں کے نام پر فرقہ وارانہ طور پر حساس تصور کئے جانے والے علاقہ میں مخنثوں کو حملہ کا نشانہ بناتے ہوئے سڑک پر ہنگامہ آرائی اور نعرہ ٔ بازی کی جانا جبکہ ریاست میں ڈی جی پی کی جانب سے اس مسئلہ پر وضاحت کی جا چکی ہے۔ ریاست تلنگانہ میں فرقہ وارانہ قوتوں کو اپنا اثر بڑھانے کے لئے اس طرح کے واقعات کی شدید ضرورت محسوس ہورہی ہے اور سیاسی کارکنوں کی تعداد میں آنے والی کمی بھی اہل سیاست کو پریشانیوں میں مبتلاء کئے ہوئے ہے کیونکہ انتخابات کا سال ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کی کارکردگی پر سوال کرنے والے نوجوانوں کی بڑھتی تعداد سے نمٹنے کے لئے اس سے بہتر کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ اس طرح کے ہنگامہ آرائیوں میں ملوث نوجوان بحالت مجبوری سیاسی مدد حاصل کرتے ہیں اور ایسے وقت میں ان کی مدد کرتے ہوئے سیاسی قائدین کی جانب سے ان نوجوانوں کو بالواسطہ سیاسی کارکن بنا لیا جاتا ہے۔ شہر حیدرآباد میں حملوں کے کئی واقعات پیش آئے ہیں اور کئی واقعات پیش آتے رہتے ہیں لیکن ہجوم کی جانب سے اس طرح کی درندگی کے واقعات حالیہ عرصہ میں ہی ریکارڈ کئے جا رہے ہیں اور اس طرح کے واقعات ریاست اور شہر کے مستقبل کے حق میں بہتر نہیں ہیں۔