بچوں کی تعلیم کے لیے 30 سال سے پان کی فروختگی

عام آدمی کی خاص بات
بچوں کی تعلیم کے لیے 30 سال سے پان کی فروختگی
حیدرآباد ۔ یکم ۔ دسمبر : ( نمائندہ خصوصی ) : حیدرآباد کا تاریخی چارمینار جہاں مقامی اور بیرونی سیاحوں کا ہمیشہ ہجوم رہتا ہے اور جہاں ہر قسم کا کاروبار کرنے والے آپ کو مل جائیں گے ۔ لیکن آج ہم یہاں جن دو دوستوں کا تذکرہ کررہے ہیں وہ شیخ خلیل اور شیخ فاروق ہیں جو گذشتہ 30 سال سے اپنے گلے میں پان کی ٹوکریاں لٹکائے آپ کو چارمینار کے اطراف و اکناف پان فروخت کرتے ہوئے نظر آئیں گے ۔ شیخ خلیل نے بتایا کہ انہیں 3 بیٹے اور 2 بیٹیاں ہیں اور سب کے سب تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ ایک بیٹی حفظ قرآن کررہی ہے ۔ موصوف عالیجاہ کوٹلہ کے ساکن ہیں کا کہنا ہے کہ وہ محنت بچوں کی تعلیم کے لیے کررہے ہیں ۔ وہ اپنے زمانے میں پڑھائی سے محروم رہے لہذا اب صبح 11 تا رات 11 بجے تک وہ پان فروخت کرنے پر مجبور ہیں ۔ وہ اپنے بچوں کو ایسا کام کرنے نہیں دیں گے تاکہ اعلی تعلیم حاصل کر کے عزت کی زندگی گزارسکیں ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ روزانہ پان کی 4 ٹوکریاں فروخت کرتے ہیں ۔ اس طرح ایک دن میں بہ آسانی چار تا پانچ سو روپئے کمالیتے ہیں ۔ ایک ہی مقام پر کھڑے ہو کر کاروبار کرنا کوئی آسان بات نہیں ۔ اب تو یہ روزانہ کا معمول بن گیا ہے ۔ دوسری طرف 45 سالہ شیخ فاروق جو بھوانی نگر کے ساکن ہیں نے بتایا کہ ان کے تین بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ پان فروخت کرنا ان کا خاندانی کاروبار ہے ۔ نئی نسل اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہاں ہے لہذا وہ خود بھی اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر اپنی گھریلو ذمہ داریاں نبھائیں ۔ شیخ فاروق نے کہا کہ وہ خاندانی پان فروش ضرور ہیں لیکن اپنے بچوں کو یہ کاروبار کرنے نہیں دیں گے ۔ آج تعلیم کی اہمیت ہمیں معلوم ہورہی ہے ۔ دو دوستوں شیخ خلیل اور شیخ فاروق نے اپنی اولاد کی تعلیم کے لیے چاہے ماں ہو یا باپ ، کسی بھی تکلیف کو ہنستے ہنستے جھیل لیتے ہیں ۔ پان فروشی کوئی حقیر کام نہیں ہے لیکن غیر تعلیم یافتہ افراد کے لیے یہ ایک ایسا کاروبار ہے جس میں محنت زیادہ ہے لیکن آمدنی کم ۔ یہ دو افراد ان تمام والدین کے لیے ایک مثال ہیں جو ان کی طرح محنت کر کے اپنی اولاد کو اعلی سے اعلی تعلیم دلوا رہے ہیں تاکہ ان کا مستقبل روشن ہو اور وہ یہ فخر سے کہہ سکیں کہ ہماری محنت رنگ لائی ۔۔