تعلیم ، اخلاق و ذہنی اور جسمانی نشونما پر اولیائے طلبہ فکرمند
حیدرآباد /3 ستمبر ( سیاست نیوز ) مسابقت تعلیمی قابلیت ٹیالنٹ اور ٹسٹ کی دوڑ میں موجودہ تعلیمی نظام ڈسپلین اور اقدار اخلاقی سے عاری ہوتا جارہا ہے ۔ سابق میں مدارس بہترین تربیت اور راہ راست کا ذریعہ تھے اور مدارس قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ۔ لیکن آج کل کے دور میں اسکولس سرمایہ داروں کیلئے زبردست تجارت کا ذریعہ بن گئے ہیں اور اخلاقیات کی دوڑ کے بجائے چوہے بلی کی دوڑ کا ماحول بنتا جارہا ہے ۔ اس تعلیمی نظام سے ایک طرف بچے اخلاقیات ،سماجی ذمہ داری اور رشتہ داری کی اہمیت بڑوں کی عزت اور احترام کے علاوہ مذہبی تعلیم سے دور ہو رہے ہیں تو دوسری طرف اولیائے طلباء کیلئے تعلیم اخراجات اور بچوں کی صحت و نشونما اہم مسئلہ بن گیا ہے ۔ اولیاء طلبہ اپنے بچوں کی نشونما و تربیت کے تعلق سے کافی فکرمند ہیں ۔ اسکول کے اوقات ، تعلیمی نظام اور اسکول انتظامیہ کے تعلق سے کئے گئے ایک سروے میں کئی والدین نے بتایا کہ وہ اپنے بچوں کے تعلق سے کافی فکرمند ہیں ۔ ان کے روشن مستقل کیلئے وہ والدین ہونے کے باوجود اپنی مرضی کے مطابق اقدام نہیں کرسکتے چوکہ ان کے بچوں پر اسکولس کی مرضی چلتی ہے ۔ کئی والدین ایسے ہیں جو صرف چھٹی کے دن اپنے بچے سے ملاقات کرسکتے ہیں چونکہ بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی دوڑ میں وہ رات دیر گئے اپنے گھر پہونچتے ہیں اور جب ان کی صبح ہوتی ہے تو بچے اسکول چلے جاتے ہیں ۔ بچوں کو اسکول پہونچنے کیلئے ایک تا دیڑھ گھنٹہ قبل گھر سے نکلنا پڑتا ہے اور جب وہ اسکول سے نکل کر اپنے وزنی کتابوں کا بوجھ لئے شہر کی ٹریفک کے دھکوں سے تھک کر گھر پہونچتے ہیں اور ہوم ورک کی فکر ، پراجکٹوں اور ماہانہ ٹسٹوں کی فکر اسکولس کے دیگر سرگرمیوں کی فکر کیلئے کمسن بچوں کو وقت ہی ہے ۔ کم عمر میں جب دل و دماغ کسی سمت مڑنے اور ذہن سازی کی جو عمر ہے والدین اس عمر میں بچوں کی تربیت نہیں کر پارہے ہیں جس کے نتیجہ میں بچے تعلیمی زیور سے آراستہ تو ہو رہے ہیں لیکن اخلاقی طور پر بالکل کمزور ہوتے جارہے ہیں ۔ جبکہ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ بچے دینی تعلیم سے بھی دور ہو رہے ہیں ۔ ان میں دینیات اسلامی بنیادی تعلیم اور اسلامی تربیت میں کافی کمی واقع ہو رہی ہے ۔ اسلامی بنیادی تعلیم اور تاریخ اسلام کے اہم ترین پہلو سے نسل نہ واقف یہ رحجانات ایسے والدین میں دیکھے گئے جن کے بچے حیدرآباد کے ہر وہ مصروف اسکولس میں زیر تعلیم ہیں جو مصروف علاقوں میں پائے جاتے ہیں ۔ جب کی یہ ہی فکر ہے کہ بچوںکے اسکولس کے اوقات اور نصاب میں کمی اور مسابقت کی دوڑ اگر کم کی جائے تو ان کی نشونما اور تربیت درست انداز سے ہوسکے ۔ تاہم یہ پوچھے جانے پر کہ آیا ایسے اسکولس کے انتخاب کیوں کیا گیا تو جب بھی حیران کن ہی رہا ۔ چونکہ تقریباً ہر اسکول کا مزاج ہی کچھ ایسا ہوگیا ہے تو پھر کیا کریں ۔ اگر ہم بچہ کو معیاری تعلیم کی دوڑ میں شامل نہ کریں تو ترقی مشکل ہوجائے گی ۔ جب یہ پوچھا گیا کہ بچوں کے ساتھ وقت کیوں نہیں گذارتے تو چند والدین نے بچوں کی گھریلو روزانہ کی ضروریات زندگی کیلئے اور ٹائم کو ضروری قرار دیا ۔ اس وجہ سے وہ وقت نہیں دے پاتے تو چند کا کہنا ہے کہ جب وہ گھر پہونچ بھی جاتے ہیں تو بچے یا تو ہوم ورک میں مصروف یا تو بچوں کو صبح کی تیاری میں جلد سلادیا جاتا ہے ۔ اگر اسکولس کے اوقات کم کرائے جائیں تو یہ مسئلہ کافی حد تک حل ہوسکتا ہے ۔ افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ کئی مکانات میں عربی ٹیوشن کو بند کردیا گیا یا پھر امتحانات کے قریب عربی ٹیوشن کو بند کرتے ہوئے مولوی صاحب کو روانہ کردیا جاتا ہے ۔ میلوں دور اسکولس پہونچکر والدین پیرنٹس میٹ میں بچے کی تعلیمی قابلیت کے تعلق سے وضاحت تو کرتے ہیں تاہم گھر آکر دینی تعلیم دینے والی مولوی صاحب سے استفسار تک نہیں کرتے ۔ سابق میں گھر اور خاندان کے بڑے افراد بچوں کو دعوت و تقاریب میں اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور محفلوں میں ساتھ لیکر بیٹھتے تھے تاکہ بڑوں کے رویہ کو دیکھ کر ان میں اخلاق اور تربیت کا ماحول پیدا ہو لیکن آج کل ایسا نہیں رہا ۔ سماج میں ترقی کرنے والے سائنسدانوں کی تاریخ یا پھر دولت مند ماہرین کی تاریخ اگر دیکھی جائے تو اندازہ ہوگا ۔ ان کے دور میں ایسے بڑے اسکولس اور ایسا تعلیمی نظام نہیں تھا لیکن تربیت اور فکر نے انہیں اس مقام پر پہونچا دیا جس سے آج کی نسل کافی دور نکل پڑی ہے ۔ اسکولس کے اوقات کی کمی سے بچے کھیل کود ۔ والدین کے ساتھ وقت گذاری اور اپنی تعلیم و ماحول کے علاوہ اپنے گھروں و سماج سے تربیت حاصل کرسکتے ہیں ۔