اولاد کی تربیت ماں اور باپ دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ جب تک دونوں فریق اپنی اپنی ذمہ داریاں ٹھیک طریقے سے نہیں نبھاتے، اولاد کی صحیح تربیت نہیں ہوسکتی۔ لیکن ان دونوں میں باپ کی تربیت ماں کی تربیت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ کیونکہ باپ گھر کی ایک ذمہ دار ہستی ہے۔ اسے اپنا، اپنی بیوی، اپنے بچوںاور پورے گھر کا خیال رکھنا اور ہر قسم کی ذمہ داریاں نبھانا پڑتا ہے۔ باپ ہی بچوں کی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے اور ہر قسم کی ذمہ داریاں نبھانا پڑتا ہے۔ باپ ہی بچوں کی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے اور ہر قسم کی مدد کرکے انھیں زندگی کے ہر میدان میں اُتارتا ہے۔ اسے اپنے کاروبار، اپنے پیشے اور اپنی ملازمت کے ساتھ جتنی ذمہ داریاں لگی ہوئی ہوتی ہیں‘ اس سے کہیں زیادہ ذمہ داریاں بچوں کی زندگی سے جڑی ہوتی ہیں۔ چنانچہ باپ کیلئے گھر اور باہر کی زندگی کے علاوہ بچوں کی شخصیت کی تعمیر ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ بچوں کو پال پوس کر بڑا کرنا اور انھیں زندگی کے حالات اور واقعات کا سامنا کرنے کے قابل بنانا باپ کیلئے بڑے ہی صبر و برداشت کا کام ہے۔ ایک ہی ماں کے تمام بچے مزاجاًیکساں نہیں ہوتے۔ ان کے مزاج، خواہشات، چاہت، پسند وغیرہ میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔صلاحیتیں اور قابلیتیں وغیرہ بھی جُدا ہوتی ہیں۔ بعض بچے بے حد خاموش اور سنجیدہ ہوتے ہیں، بعض ضدّی، شریر، نٹ کھٹ اور ہٹ دھرم۔ مگر فطری طور پر ہر بچہ اپنی بات منواتاہے۔ اپنی خواہش کو تسلیم کرواتا ہے، چاہے رو دھوکر ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے بچوں کے ساتھ رہتے ہوئے انسان میں صبر آجاتا ہے۔